لائف سٹائل

پاکستان میں ڈیجیٹل کرنسی، خواب یا حقیقت؟

 

محمد فہیم

پاکستان میں دیگر ممالک کے طرز پر ڈیجیٹل کرنسی شروع کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے جس سے ایک جانب نوٹوں کی چھپائی پر اٹھنے والے اخراجات کم کرنے میں مدد ملے گی تو دوسری جانب سرمایہ کاروں کی جانب سے خفیہ رکھی گئی رقم باہر نکالنے کی بھی حکمت عملی بنائی گئی ہے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے کالے دھن کو روکنے، روپے کی قدر کو بہتر بنانے اور مختلف قسم کی ادائیگیوں کے لیے ڈیجیٹل کرنسی متعارف کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے چینی کرنسی کے ماڈل کے طرز پر کام کیاجائیگا۔ ڈیجیٹل کرنسی کی قدر پاکستانی روپے کے برابر ہی ہوگی جیسے چین کی ڈیجیٹل کرنسی کا ایک یونٹ چینی یوان کے برابر ہے اور اس کو اسٹیٹ بینک کی مکمل حمایت حاصل ہوگی۔

سابق ڈپٹی ڈائریکٹر سٹیٹ بینک آف پاکستان اور سابق وائس پریڈیڈنٹ مسلم کمرشل بینک منصور آفریدی کہتے ہیں کہ یہ انتہائی اہم اقدام ہے جس سے ہم بڑی کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ سٹیٹ بینک کی جانب سے اس پر کافی وقت سے کام جاری تھا اور اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ترقی یافتہ ممالک کے طرز پر ڈیجیٹل کرنسی شروع کی جائیگی۔ انہوں نے کہا کہ نوٹوں کا خرچ اس ملک پر ایک بوجھ ہے۔ پورے ملک میں نوٹوں کی چھپائی اور کاغذ پر خرچ آتا ہے اس کے بعد سٹیٹ بینک نے ملک بھر میں دفاتر کھولے ہوئے ہیں اور یہ نوٹ وہاں پہنچائے جاتے ہیں جس پر ٹرانسپورٹیشن کا خرچ آتا ہے۔ اسی طرح ان نوٹوں کی حفاظت کیلئے ہزاروں ملازمین رکھے گئے ہیں اس کا خرچ الگ سے ہے۔ یہ تمام اخراجات اس کرنسی کے نقصانات ہیں۔ ایسے میں ڈیجیٹل کرنسی ان تمام اخراجات کو کنٹرول کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ ملک بھر میں لوگوں نے اپنا کالا دھن چھپا کہ رکھا ہوا ہے۔ ڈیجیٹل کرنسی کو چھپانے کا کوئی راستہ نہیں ہوگا۔ اس کا تمام ریکارڈ موجود ہوگا اور ڈیجیٹل ایپلی کیشن کے ذریعے شہری اس کو استعمال کرسکیں گے جبکہ حکومت بھی اپنے ملک میں موجود کرنسی سے باخبر رہے گی۔

حکومت پاکستان کی جانب سے ڈیجیٹل کرنسی کے حوالے سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق یہ پیپر کرنسی کی طرح حکومتی ضمانت کی بنیاد پر ہو گی۔ ڈیجیٹل کرنسی کی تیاری کے لیے اسٹیٹ بینک نے کام شروع کردیا ہے اور اس ضمن میں ماہرین کی خدمات بھی حاصل کی جا رہی ہیں۔ ڈیجیٹل کرنسی کیلئے سینٹرل بینک ڈیجیٹل کرنسی کے نام سے ایک ادارہ کام کررہا ہے جو اس کی لاگت اور دیگر عوامل کا جائزہ لے رہا ہے تاکہ ہر قسم کی باریکی کو مد نظر رکھا جائے اور ڈیجیٹل کرنسی شروع کرنے کے بعد کسی قسم کی کمی یا خرابی نہ رہ جائے۔

ڈیجیٹل کرنسی کے نفاذ کے حوالے سے ممکنہ مشکلات پر بات کرتے ہوئے ٹیلی کام کے شعبہ سے وابستہ انجینئر ڈاکٹر سہیل احمد کہتے ہیں کہ یہ معاملہ اتنا بھی آسان نہیں جیسا بتایا جا رہا ہے۔ پاکستان میں ہمیں انٹرنیٹ تک رسائی میں شدید مشکلات ہیں۔ حکومت کہتی ہے کہ ایک ایپلی کیشن ہوگی اور آپ ٹرانزیکشن کرلیں گے لیکن انٹرنیٹ ہوگا تو رقوم کا تبادلہ ہوگا۔ جبکہ ملک بھر میں انٹرنیٹ کی صورتحال سب کے سامنے ہیں۔ بڑے بڑے شہروں میں موبائل فون ہی کام نہیں کرتے انٹرنیٹ تو دور کی بات۔ قبائلی علاقوِں، گلگت اور ملک بھر کے دیہی علاقوں میں انٹرنیٹ کی سروس انتہائی کمزور ہے جو ڈیجیٹل کرنسی کے نفاذ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ حکومت اور خصوصا ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کو اس ضمن میں فوری 5جی ٹیکنالوجی پر کام کرنا ہوگا اور اس کی تمام شہریوں تک رسائی یقینی بنانی ہوگی اسی کے بعد ڈیجیٹل کرنسی کے کامیاب ہونے کیلئے بات کی جاسکتی ہے۔

حکومتی ذرائع کے مطابق ڈیجیٹل کرنسی شروع کرنے کے بعد آہستہ آہستہ ڈیجیٹل کرنسی اور کاغذی کرنسی کے تناسب کو کم کیاجائیگا اور اس کو اس حد تک لے جایا جائیگا جہاں ملک بھر میں آئندہ 5سال بعد 90فیصد ڈیجیٹل کرنسی اور 10فیصد نوٹ استعمال ہوں گے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button