طورخم: پی پی ڈی کلیئرنس کے باعث سینکڑوں گاڑیاں بارڈر پر پھنس گئی
محراب آفریدی
پاک افغان طورخم بارڈر پر تازہ پھلوں اور سبزیوں کی سینکڑوں گاڑیاں پی پی ڈی کلیئرنس کے باعث کھڑی ہے جس کے خلاف کسٹم کلیئرنگ ایجنٹس سراپا احتجاج بن گئے ہیں۔
کسٹم کلیئرنس ایجنٹس کا مطالبہ ہے کہ جو سبزیاں اور فروٹ کی گاڑیاں کھڑی ہیں ان کو پلانٹ پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ کلیئرنس کے بغیر چھوڑ دیا جائے کیونکہ ان کے خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ طورخم بارڈر پر پی پی ڈی کے ساتھ گاڑیوں کی کلیئرنس کی سہولیات ہے نہ ان کے لئے مناسب جگہ کہ وہاں پر سبزی اور تازہ فروٹ گاڑیوں کی فوموگیشن اسپرے کی جائے لہذا ان گاڑیوں کو آنے دیا جائے۔
ان کا کہنا ہے کہ بارڈر کے اس پار انگور، ٹماٹر و دیگر پھل اور سبزیوں کی گاڑیاں کھڑی ہے جس سے تاجر برادری کا کروڑوں روپے نقصان ہورہا ہے۔ طورخم کسٹم کلیئرنگ ایجنٹس کے مجیب شینواری، شاہ جہان، خاریج خان و دیگر نے احتجاج ریکارڈ کرتے ہوئے کہا کہ طورخم بارڈر پر 2018 سے پی پی ڈی کا اختیار کسٹم حکام کے پاس ہے کیونکہ یہ سہولیات طورخم بارڈر پر میسر نہیں۔ انہوں نے کہا کہ پلانٹ پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ کا طورخم میں رہائش و آفس کی جگہ نہیں یہاں پر گاڑیوں کی فوموگیشن اسپرے کیسے ممکن ہوسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 9 روز بارڈر بندش سے پھل اور سبزیوں کی گاڑیاں سخت گرمی و تپش میں کھڑی تھی اب ان کے خراب ہونے کا خدشہ ہے۔ کسٹم کلیئرنگ ایجنٹس نے کہا کہ اس پالیسی کے خلاف ہائی کورٹ میں کیس دائر کرینگے۔
اس حوالے سے پلانٹ پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ طورخم کے انچارج عمر فاروق نے کہا کہ فریش فروٹ اور سبزی کلئیرنس کے حوالے سے 11 ستمبر کو پی پی ڈی کے ڈی جی نے باقاعدہ طور پر پی پی ڈی کوارنٹین عمل لاگو کرنے کے حوالے سے لیٹر جاری کیا۔ اس لیٹر میں کہا گیا ہے کہ 18 ستمبر سے مذکورہ پالیسی نافذ العمل ہو گی جس پر ہم نے ڈی جی پلانٹ پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ کراچی کو لیٹر و مراسلہ بھیج دیا کہ ہمارے پاس طورخم بارڈر پر کسی قسم کی سہولیات میسر نہیں ہے لیکن تاحال کوئی جواب نہیں آیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم ڈی جی حکم کے منتظر ہیں جو حکم ہمیں مل جاتا ہے اسی ڈائریکشن پر ہم کام کرینگے۔ انہوں نے کہا کہ پی پی ڈی میں ہر امپورٹ گاڑی کے ساتھ فائٹو سنیٹری سرٹیفیکٹ، ریجن سرٹیفیکٹ کے ساتھ چالان ہونا لازمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے پی پی ڈی کے فوموگیشن اسپرے کے لئے مناسب جگہ بارے این ایل سی کو درخواست کی ہے لیکن وہاں سے کوئی خاص جواب نہیں آیا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم یہاں سینکڑوں گاڑیوں کی کلیئرنس کے عمل کو روکنے کے حوالے سے آگاہ ہے لیکن ہم ڈی جی ہیلتھ کراچی کے ماتحت ہے اور ان کے حکم کے منتظر ہیں۔ پہلے یہ پالیسی 2018 میں نافذ کرنی تھی لیکن سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے کلیئرنس کسٹم حکام کے حوالے کیا گیا۔