لائف سٹائل

طورخم بارڈر کی مسلسل بندش، تاجروں کو 30 لاکھ ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا

ہارون الرشید

طورخم بارڈر گزشتہ 9 دنوں سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان ہر قسم کی آمدورفت کے لیے بند ہونے کی وجہ سے دونوں ممالک میں سامان سے لدے ہزاروں ٹرکوں کی قطاریں لگ گئی ہیں۔

پاک افغان جوائنٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے ڈائریکٹر ضیاء الحق سرحدی کے مطابق چیک پوسٹ کی تعمیر کے تنازعہ پر پاک افغان سکیورٹی فورسز کے درمیان فائرنگ کے بعد پیدا ہونے والے تعطل نے سڑنے والی اشیا بشمول تازہ پھل، سبزی، مرغی، گوشت، انڈے، جوس اور دیگر کو تباہ کر کے تاجروں کو اب تک تقریباً 30 لاکھ امریکی ڈالر کا نقصان پہنچایا۔

ضیاء الحق سرحدی نے ٹی این این کو بتایا کہ طورخم زیرو پوائنٹ سے لنڈی کوتل تک 1500 سے 2000 سے زیادہ ٹرک قطار میں کھڑی ہیں جو سرحد کھلنے کے انتظار میں ہیں۔اسی طرح افغانستان کی طرف پاکستان کو تازہ پھلوں کی برآمد کے سیزن کی وجہ سے پھنسے ہوئے ٹرکوں کی تعداد 2000 سے 2500 کے قریب ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ٹرکوں میں لدی ہوئی خراب ہونے والی اشیا پھل، انگور، کیلا، لیموں، تربوز، ٹماٹر اور دیگر سبزیاں سڑ چکی ہیں۔ ٹرانزٹ ٹریڈ کے سامان کے علاوہ دونوں ممالک سے درآمدی اور برآمدی سامان کی ایک بڑی مقدار ضائع ہو چکی ہے اور سرحد بند ہونے کی وجہ سے پھنس کر رہ گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان سے روزانہ تقریباً 150 سے 200 ٹرک صابن کے پتھر اور 100 ٹرک کوئلہ پاکستان آتے ہیں، تازہ پھلوں اور سبزیوں کو لے جانے والے ٹرکوں کی تعداد مذکورہ اعداد و شمار سے زیادہ ہے جبکہ بڑی تعداد میں ٹرک سرحد پار کر کے افغانستان جاتے ہیں جو پاکستان سے برآمدی سامان جیسے سیمنٹ، ساختی لوہا (سریا)، مرغی، گوشت، انڈے، کیلا، آلو وغیرہ لے کر جاتے ہیں۔

ڈائریکٹر نے متعلقہ حلقوں پر زور دیا کہ وہ تنازعہ کے جلد حل کے لیے اقدامات کریں کیونکہ سرحد کی مستقل بندش کوئی حل نہیں ہے اور یہ دونوں ممالک کی معیشت اور علاقائی تجارت کے لیے نقصان دہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ عناصر ٹرانزٹ ٹریڈ کی سہولت کے غلط استعمال اور برآمد شدہ سامان کی پاکستان واپس سمگلنگ کے الزامات لگا رہے ہیں۔

ضیاء نے کہا کہ چار سے پانچ مختلف محکمے سرحدی حفاظت پر کام کر رہے ہیں اور تجارتی سرگرمیوں کو مکمل طور پر بند کرنے کے بجائے آنے اور جانے والے سامان کی نگرانی ان کا فرض ہے۔

ڈائریکٹر نے مزید کہا کہ وسطی ایشیائی ممالک کو پاکستان کی برآمدات کا انحصار افغانستان سے گزرنے پر ہے اور سرحد کی بندش سے نہ صرف دو طرفہ تجارت بلکہ علاقائی تجارت بھی متاثر ہو رہی ہے۔ تاجروں کے علاوہ سرحد کی بندش سے بڑی تعداد میں بیمار افغان باشندے بھی متاثر ہوئے ہیں جو علاج کے لیے پاکستان آتے ہیں اور بگڑتی ہوئی حالت میں سرحد پر پھنس گئے ہیں۔

کاروباری شخصیت صدر شاہد خان شینواری نے ٹی این این سے بات کرتے ہوئے کہا کہ طورخم بارڈر بندش سے کاروباری لوگوں کو روزانہ کے حساب سے کروڑوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے، ٹرانزٹ ٹریڈ اور ایکسپورٹ کی ہزاروں گاڑیاں درہ خیبر پر گزشتہ 9 دنوں سے کھڑی ہیں، ڈیمارج کے نقصانات الگ ٹرانسپورٹرز کو ادا کرنا پڑیں گے اور اسی طرح افغانستان میں بھی سبزیوں اور پھلوں سمیت دیگر اشیاء کی سینکڑوں گاڑیاں کھڑی ہیں۔

شاہد شینواری نے کہا کہ پاکستان کی 80 فیصد ایکسپورٹ طورخم کے راستے ہوتی ہے اور ہمارے لئے بڑی اور قریبی مارکیٹ افغانستان ہے جہاں سینٹرل ایشیا کے ساتھ ہم کاروباری تعلقات استوار کر سکتے ہیں اور اسی طرح افغانستان کی سبزیوں اور پھلوں وغیرہ کے لئے قریب ترین اور بہترین مارکیٹ پاکستان ہے اس طرح دونوں ممالک کا ایک دوسرے پر کئی حوالوں سے دارومدار ہے اور دونوں طرف کے لوگ ایک دوسرے کے حالات سے متاثر بھی ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت دونوں پڑوسی ممالک کی معیشت کچھ بہتر نہیں دونوں طرف تاجر اور کاروباری لوگ متاثر ہورہے ہیں تو اس سے مہنگائی، غربت اور بے روزگاری میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے اور پھر مجبوراً دونوں طرف لوگ احتجاج پر اتر آتے ہیں، ہر ملک کی اپنی پالیسی ہوتی ہے تاہم کوئی ملک بارڈر پر ٹینشن اور جنگ کے باوجود تجارت بند نہیں کرتا کیونکہ اقتصاد کمزور ہوگا تو ملک کمزور ہوگا کاروبار اور تجارت کو سیاست سے الگ تھلگ رکھنا چاہئے۔

شاہد خان شینواری نے پاک افغان حکومتوں پر زور دیا کہ آپس کے اختلافات اور غلط فہمیوں کو مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر حل کریں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button