کم عمری میں بیاہی جانے والی آمنہ نے کن کن مشکلات کا سامنا کیا؟
ایمن زیب
زمانہ قدیم سے یہ ہوتا چلا آرہا ہے کہ لڑکی کو ہمیشہ چپ رہنے کو کہا جاتا ہے اور خاندان والے جہاں رشتہ کرنا چاہے اسے چپ چاپ ان کی بات ماننی پڑتی ہے۔ آمنہ بھی انہیں لڑکیوں میں سے ایک تھیں جس کی شادی اس کی مرضی کے بغیر کر دی گئی تھی۔
آمنہ ملتان میں پیدا ہوئی۔ وہ ایک پولیس انسپکٹر کی بیٹی تھی۔ وہ اکلوتی بیٹی ہونے کی وجہ سے بہت لاڈلی تھی مگر آمنہ کا یہ لاڈلا پن کچھ ہی سالوں کا تھا۔ جب آمنہ سات سال کی تھی ان کے والد وفات پاگئے جس کے بعد آمنہ اور ان کی ماں دو بیٹوں سمیت مردان اپنے بھائی کے ہاں رہنے لگے۔
آمنہ چونکہ بہت چھوٹی تھی اور پشتو زبان بولنے سے قاصر تھی۔ اس کو کوئی کام بھی نہیں آتا تھا اس لیے اس کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ نازوں سے پلنے والی آمنہ کبھی لوگوں کی گندی نظروں تو کبھی احساس کمتری کا شکار ہوتی۔ کبھی ماں سے دوری سہہ کر خالہ کے ہاں رہتی تو کبھی ممانی کے ہاں۔ وقت گزرتا گیا لیکن حالات ویسے ہی تھے جب آمنہ چھٹی جماعت میں پروموٹ ہوئی تو ان کے بھائی نے کرائے کا گھر لیا۔ وہ سب وہاں ایک ساتھ رہنے لگے۔ آمنہ نے سکھ کا سانس لیا۔ اسے لگ رہا تھا کہ سب کچھ دوبارہ ٹھیک ہوجائے گا لیکن یہ صرف اس کی خوش فہمی تھی کیونکہ کچھ عرصے بعد ان کے بھائی کی شادی ہوئی۔ بھابھی اپنے ساتھ مزید مشکلات لے آئی اور پورا گھر سر پہ اٹھالیا۔
آمنہ کے سر پر آسمان اس وقت گرا جب وہ دسویں جماعت میں تھی۔ اب سب کو اس کی شادی کی فکر لاحق ہوگئی اور اس سے عمر میں بہت بڑے آدمی سے اس کا رشتہ کردیا گیا۔ آمنہ صرف سولہ سال کی تھی اور شادی کے لیے راضی نہیں تھی لیکن اس کی سنتا بھی تو آخر کون! اگر وہ کچھ بولتی تو خاندان والے طرح طرح کی باتیں بناتے کہ بھئی لڑکی کیوں شادی سے انکار کر رہی ہے آخر معاملہ کیا ہے! آمنہ چپ رہی اور اس کی شادی ہوگئی۔
پہلے دن ہی سسرال میں آمنہ بہت گھبرائی ہوئی تھی کیونکہ ان کے طور طریقے آمنہ سے بلکل الگ تھے۔ دوسرا اور سب سے بڑا مسئلہ آمنہ کا شوہر تھا۔ شادی کے تیسرے ہفتے ہی مارپیٹ کا سلسلہ شروع کر دیا۔ ایک سال بعد ان کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی جس پر اس کی ساس خوش نہیں تھی کیونکہ ہمارے معاشرے میں بیٹی کی پیدائش پر خوشی نہیں ماتم منایا جاتا ہے۔ مارپیٹ کا سلسلہ بڑھتا گیا اور پھر آمنہ میکے رہنے لگی۔ آمنہ کا کوئی نہیں سوچتا تھا یہاں تک کہ چھریوں سے بھی زخمی کیا گیا لیکن وہ کسی کو نہ بتاتی کیونکہ وہ ماں کو دکھی نہیں کرنا چاہتی تھی اور بھائی لوگ اسکی سنتے نہیں تھے۔
پانچ سال بعد آمنہ اور اس کا شوہر الگ رہنے لگے۔ آمنہ اب نوکری بھی کرنے لگی کیونکہ گھر کی ذمہ داری آمنہ کے سر پر آگئی تھی۔ اب شوہر مارپیٹ کے ساتھ ساتھ آمنہ کے پیسے بھی ہڑپ کرنے لگا۔ آمنہ ایک کمپنی میں آفیسر تھی اور باقی چھوٹی چھوٹی نوکریاں بھی کرتی اور بڑی مشکل سے گھر کے اخراجات، بچوں کی فیسیں، کھانا پینا اور رشتہ داریاں پوری کرتی تھی۔ آمنہ کئی دفعہ شوہر سے خفا ہوکر میکے بھی گئی لیکن سب جان چھڑا کر ان کی صلح کرتے اور پھر مارپیٹ کا سلسلہ شروع ہوجاتا۔ آمنہ کو صرف گزارا کرنے کو کہا جاتا تھا۔ صرف غیرت اور دکھاوے کے لیے تھوڑا حال چال پوچھتے۔ آمنہ کے شوہر کو بچوں کے مستقبل کا کوئی خیال نہ تھا لیکن آمنہ اپنے بچوں کے لیے سنہرے خواب دیکھتی تھی اور دن رات محنت کرتی تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ اس کے بچے خاص طور پر بیٹیاں بہترین زندگی گزارے اور اس کی طرح ہر چیز کے لیے نہ ترسے۔ پھر جب آمنہ کی بڑی بیٹی دسویں جماعت میں تھی تو دونوں کا ایکسیڈنٹ ہوا جس میں ماں بیٹی شدید زخمی ہوئی۔ بیٹی تو بچ گئی لیکن آمنہ دو دن بعد فوت ہوگئی اور اسی طرح اس دنیائے فانی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر چلی گئی۔ اب ساری ذمہ داری اس کی بڑی بیٹی پر آگئی۔ اب یہاں میرا یہ سوال اٹھتا ہے کہ قصور آخر کس کا تھا! آمنہ کا یا اس کے بڑوں کا؟
ظاہر ہے بڑوں کا ہی ہے کیونکہ اگر وہ آمنہ کا بچپن چھین کر اس کی شادی نہ کرتے تو آمنہ اور اسکے بچوں کی زندگی برباد نا ہوتی۔ ان کی لاپرواہی کی سزا نہ صرف آمنہ بلکہ اب اسکے بچے بھی بھگت رہے ہیں۔ اگر ہمارا معاشرہ آمنہ جیسی لڑکیوں کو بوجھ سمجھ کر ان کی شادی کرنے کی بجائے ان کی تعلیم و تربیت پر توجہ دیں تو آمنہ جیسی بہت ساری لڑکیوں کی زندگی برباد ہونے سے بچ جائے گی اور ملک و قوم کی ترقی میں بھی کردار ادا کریں گی۔