لائف سٹائل

امیر خاندانوں کی غریب اور بے بس بیٹیاں وراثت سے کب تک محروم رہیگی؟

سعید بادشاہ مہمند

"وہ ایک غریب خاتون کی حیثیت سے دفن کی گئی۔ جاننے والوں کو ملال تھا کہ والد کے کروڑوں روپے جائیداد اور آمدن کے باوجود کسمپرسی کی زندگی گزاری اور آخر تک پرامید تھی کہ ایک روز ان کے بیٹے معاشی طور پر مستحکم ہوجائنگے پھر وہ اپنے خاندان کو فخریہ طور پر بتائے گی مگرکروڑ پتی بھائیوں کی غریب بہن کی یہ آرزو ان کی زندگی میں پوری نہیں ہوئی”

حاجی خانوادہ افسوس کے ساتھ بتارہا تھا کہ ضلع مہمند کی مرحومہ (ن) نے ساری ازدواجی زندگی غربت اور بھائیوں بھتیجوں کی خوشامد میں اس آس پر گزاری کہ انہیں رحم آجائیگا اور والد کی وصیت کے مطابق نہ بھی ہو تو کچھ نہ کچھ تو دینگے لیکن انکو کچھ نہ مل سکا۔ جب وہ اپنے اور بچوں کے لئے ضرورت کے وقت بھائیوں کے گھر جاکر اپنا مدعا بیان کرتی تو بھائی اور بھتیجے خیرات کے طور پر ہزار پانچ سو روپے تھماکر جان چھڑا دیتے تھے۔ عمر کے آخری حصّے میں بیمار ہوئی تو طویل علاج پر اپنے بیٹوں کو مقروض کرا کے فوت ہوگئی۔ اس طرح ایک اورکمزور اور بے بس حوا کی بیٹی کی کہانی تمام ہوگئی۔

پختون بیلٹ بالخصوص قبائیلی علاقوں میں ایک صدی سے خواتین کو خاندان کے وراثت میں حصّہ دینے کی مثالیں بہت کم ملتی ہے۔ غریب گھرانوں میں بیاہی جانے والی مالدار خاندانوں کی بہن بیٹیاں ایسے ہی حالات سے دوچار رہتی ہیں۔
مہمند بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر رشید مہمند ایڈوکیٹ نے ٹی این این کو بتایا کہ فاٹا کے صوبے میں انضمام کے بعد قبائلی اضلاع میں خواتین کے حقوق کو کافی حد تک تحفظ حاصل ہو گیا ہے۔ انضمام کے ابتدائی دو سال گزرنے کے بعد خواتین میں اتنا شعور آگیا ہے کہ گزشتہ تین سال سے ضلع مہمند کے عدالتوں میں کئی ایسے کیسز آئے ہیں جس میں خواتین پدری جائیداد اور املاک میں وراثت کا حق مانگنے لگی ہیں جس میں دو خواتین کو عدالت سے انصاف مل گیا اور والد کے جائیداد میں سے دونوں کو گھر کے لئے زمین ملی۔

انہوں نے کہا کہ اب عدالت آنے کے بعد گھریلو ناچاقی پر بے جا تشدد کے خلاف بھی خواتین پولیس اور عدالت کے پاس شکایات لانے لگی ہیں۔ پہلے کی طرح معمولی غلطی پر اب کوئی شوہر بیوی کوگھر سے نہیں نکال سکتا۔ اگر کوئی ایسا کریگا تو انہیں بیوی اور بچوں کی کفالت کے اخراجات ادا کرنے ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے معاشرے میں خواتین کے حقوق کا خیال رکھنے کا تصور پیدا ہورہا ہے۔

ضلع مہمند کے ایک مالدار گھرانے کی خاتون شاندانہ (فرضی نام) نے بتایا کہ میرے والد نے میرے بھائیوں کو بہنوں کو جائیداد اور املاک میں حصّہ دینے کی تاکید کی تھی مگر والدین کے وفات کے بعد سگے بھائیوں نے آنکھیں بدل لی اور میرا حصّہ تو درکنار ضرورت کے وقت معمولی مالی مدد سے بھی صاف انکار کردیا ہے۔ میں مجبور اور غریب ہوں مگر رواج کو دیکھتے ہوئے میں عدالت جاکر اپنے نامور والد مرحوم کو معاشرے میں رسوا نہیں کرنا چاہتی مگر بھائیوں کو حق معاف نہیں کریں گی۔

سماجی و سیاسی کارکن کنزہ اقتدار نے بتایا کہ خواتین کو وراثت میں حصّہ دینے میں کوئی نقصان نہیں کیونکہ اپنی بہن بیٹی کو وراثت میں حق دینے کی اگر معاشرے میں ایک بار شروعات ہوئی تو جس طرح بیٹی اپنا حصّہ لے گی اسی طرح بہو بھی اپنی وراثت سسرال کے گھر لائیگی۔ اس سے خواتین کا دینی اور دنیاوی حق ادا ہوگا اور معاشرے میں انصاف کا توازن قائم ہوجائیگا۔

ملک نثار احمد حلیمزئی ایک سماجی کارکن ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ خواتین کو وراثت میں حصہ نہ دینے کی وجہ لالچ کے سوا کچھ نہیں۔ بعض لوگوں نے اپنے گھر کی خواتین کو شرعی احکام اور پاکستان میں رائج قانون کے مطابق وراثت میں حصہ دیا ہے جوکہ اچھی بات ہے بات صرف مثبت سوچ اور احساس کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے خاندان میں تین نسلوں سے خواتین کو وراثت میں حصہ دیا جاتا ہے مگر بد قسمتی سے ضلع مہمند میں ایسے خاندانوں کی تعداد کافی کم ہے جو وراثت میں بہن بیٹی کو حقدار سمجھتے ہیں۔

ڈی ایس پی انویسٹی گیشن ظریف خان نے ٹی این این کو بتایا کہ انضمام کے بعد قبائلی ضلع مہمند میں خواتین
کو بنیادی انسانی حقوق تک رسائی ممکن ہوئی ہے۔ خواتین کے وراثت اور گھریلو تشدد کے خلاف شکایات پر مہمندپولیس ترجیحی بنیاد پر ایکشن لیتی ہے۔ گزشتہ پانچ سالوں میں مہمند پولیس کو خواتین کی حق تلفی, قتل و تشدد کے 17 کیسز رپورٹ ہوئے جس میں 20 ملزمان کی گرفتاری ہوئی اور 8 کو عدالت سے سزا ہوئی ہے۔ 3 کے کسیز چل رہے ہیں۔ پولیس اور عدالت کا دائرہ اختیار بڑھنے سے ضلع مہند کی خواتین میں وراثت میں حصہ مانگنے کا حوصلہ بھی پیدا ہوا ہے۔

معروف عالم دین مولانا عبدالحق سنگر نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام میں خواتین کو  وراثت میں حصہ دینے کے حکم سے پختون معاشرے میں روگردانی کی جارہی ہے۔ پرانے زمانے میں لوگ ان پڑھ اور دینی علوم سے دور رہےتھے اس لئے بہن اور بیٹی کو پرائے گھر کا مال سمجھنے کا ایک رواج بن گیا۔ انہوں نے کہا کہ قبائیلی معاشرے میں خواتین کو وراثت میں حصہ دینا یا جائیداد کا اختیار دینا معیوب سمجھا جاتا ہے مگر بہن بیٹی کا حق کھاکر دنیا اور آخرت کے لئے بڑا نقصان ہے۔ اسلام میں واضح طور پر حکم ہے کہ مرد و خواتین اولاد کو شریعت کے مطابق وراثت میں حصّہ دیاجائے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button