پاکستان سے لاکھوں افراد کی باہر ممالک منتقلی کی وجوہات کیا ہیں؟
خالدہ نیاز
خیبر پختونخوا کے ضلع پشاور سے تعلق رکھنے والی فرحانہ بھی ان لاکھوں پاکستانیوں میں شامل ہیں جنہوں نے غربت اور مہنگائی کی وجہ سے رواں برس ملک کو خیرباد کہہ دیا۔ امیگریشن بیورو کی تازہ رپورٹ کے مطابق رواں برس کے ابتدائی چھ ماہ کے دوران ساڑھے چار لاکھ پاکستانی بیرون ممالک منتقل ہوئے۔
فرحانہ نے ٹی این این کو بتایا کہ انہوں نے 13 جنوری کو پاکستان سے برطانیہ کا سفر کیا کیونکہ پاکستان میں ان کو اپنا مستقبل روشن دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ فرحانہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کے حالات دن بدن خراب ہوتے جا رہے تھے اسی وجہ سے انہوں نے فیصلہ کیا کہ وقت پر کسی دوسرے ملک جا کر اپنا کریئر بنائیں گی۔ فرحانہ نے بتایا کہ انہوں نے ملک اس لیے چھوڑا کیونکہ یہاں نہ تو روزگار کے مواقع ہیں اور نہ ہی بہتر مستقبل کی کوئی امید۔
ملک چھوڑنا آسان نہیں ہوتا
فرحانہ کا کہنا تھا کہ ملک کو چھوڑنا کسی کے لیے بھی آسان نہیں ہوتا لیکن سب لوگ مجبوری میں ایسا کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دوسرے ملک جا کر رہنا اور وہاں سیٹل ہونا بہت مشکل کام ہوتا ہے۔ شروع میں انسان کو بہت زیادہ مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے؛ رہائش کا بندوبست کرنا، اس ماحول میں خود کو ایڈجسٹ کرنا، اور پھر سب سے بڑھ کر کام یا کوئی روزگار ڈھونڈنا بہت مشکل ہوتا ہے۔
چھٹی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی 21 کروڑ سے زائد ہے اور نوجوان آبادی کا ایک بڑا حصہ ہیں۔ یو این ڈی پی کے مطابق پاکستان میں مجموعی آبادی کا 64 فیصد حصہ تیس سال سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے۔
فرحانہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کے حالات دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ معاشی مسائل کی جانب کوئی توجہ نہیں دے رہا جو کہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔ فرحانہ نے بتایا کہ بہت سارے نوجوان سٹوڈنٹس ویزہ پر آئے اور یہاں محنت مزدوری کر رہے ہیں اور گھروں کو سپورٹ کررہے ہیں۔
حکومت نوجوانوں کی طرف توجہ نہیں دے رہی
ایک سوال کے جواب میں فرحانہ نے بتایا کہ اگر پاکستانی حکومت نوجوانوں کے لیے اقدامات کرتی، ان کے لیے روزگار یا نوکریوں کا بندوبست کرتی تو کوئی بھی ملک چھوڑ کر دوسرے ممالک کا رخ نہ کرتا لیکن حکومت اس جانب کوئی توجہ نہیں دے رہی۔
رپورٹ کے مطابق روزگار اور بہتر مستقبل کے سلسلے میں بیرون ممالک جانے والوں میں ڈاکٹرز، انجنیئرز، انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکسپرٹ، سیلز مین اور عام مزدور شامل ہیں۔
پاکستان سے سب سے زیادہ افراد سعودی عرب منتقل ہوئے۔ دوسرے نمبر پر متحدہ عرب امارات (یو اے ای)، تیسرے نمبر پر قطر، چوتھے نمبر پر عمان جب کہ پانچویں نمبر پر ملائیشیا رہا۔
پاکستان سے سب سے کم افراد جنوبی کوریا، جاپان، جرمنی، چین، اٹلی اور فرانس سمیت دیگر یورپی ممالک کی جانب منتقل ہوئے۔
سب سے زیادہ 2 لاکھ سے زائد پاکستانی سعودی عرب گئے
رپورٹ میں بتایا گیا کہ سب سے زیادہ، دو لاکھ سے زائد پاکستانی سعودی عرب، ایک لاکھ 20 ہزار سے زائد متحدہ عرب امارات جب کہ 35 ہزار سے زائد قطر منتقل ہوئے۔
اسی طرح 34 ہزار سے زائد پاکستانی عمان، 8 ہزار کے قریب بحرین اور 16 ہزار سے زائد پاکستانی افراد روزگار کے سلسلسے میں ملائیشیا گئے ہیں۔ گزشتہ برس ساڑھے آٹھ لاکھ پاکستانیوں نے باہر ممالک کا سفر کیا تھا۔
ضلع اورکزئی سے تعلق رکھنے والی رخسانہ بھی اس کوشش میں لگی ہیں کہ پاکستان سے باہر جا کر اپنا مستقبل سکیور کر سکیں۔ ٹی این این کے ساتھ بات چیت کے دوران رخسانہ نے کہا کہ پاکستان کے حالات دن بدن خراب ہوتے جا رہے ہیں اور لوگوں کا خیال ہے کہ ملک دیوالیہ ہونے جا رہا ہے ایسے میں وہ بھی چاہتی ہیں کہ باہر جا کر کوئی کام شروع کریں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں نوجوانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن نوکریاں نہیں ہیں۔ جو نوجوان تعلیم مکمل کرتے ہیں ان کو دو تین ماہ کی انٹرنشپ دی جاتی ہے لیکن انہیں نوکری نہیں ملتی۔
نوجوان مایوس ہو چکے ہیں
رخسانہ نے بتایا کہ نوجوان اس قدر مایوس ہو چکے ہیں کہ وہ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ غیرقانونی سفر کتنا تکلیف دہ ہے اور اس میں ان کی جان بھی جا سکتی ہے۔ کئی نوجوان یورپ کا غیرقانونی سفرکرتے ہوئے جان کی بازی ہار بھی چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک میں غربت، مہنگائی اور بے روزگاری عروج پر ہے جس کی وجہ سے زیادہ تعداد میں نوجوان پاکستان سے باہر ممالک کا سفر کرنا چاہتے ہیں۔
دوسری جانب پشاوریونیورسٹی میں اکنامکس ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر ڈاکٹر سلیمان امین نے خراب معاشی حالات کو وقتی قرار دیا ہے۔ ٹی این این کے ساتھ بات چیت کے دوران انہوں نے کہا کہ آج کل نوجوانوں میں مایوسی ضرور پھیلی ہے اور ان کو لگتا ہے کہ پاکستان میں ان کے لیے کچھ نہیں ہے لیکن ایسا نہیں ہے، ملک جلد ان حالات سے نکل آئے گا۔
ڈالر کی اڑان جاری
انہوں نے کہا کہ ڈالر کی اڑان جاری ہے اور روز بروز مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے جس کی وجہ سے نوجوان یہاں سے باہر جانا چاہتے ہیں۔
ڈاکٹر سلیمان امین نے کہا کہ یہ ایک طرف اچھی بات ہے کہ لوگ باہر جائیں گے تو یہاں زرمبادلہ بھیجیں گے لیکن آج کل جو لوگ جا رہے ہیں وہ یہاں سے مایوس ہو کے جا رہے ہیں۔ ان کو لگتا ہے کہ یہاں سب کچھ ختم ہو گیا ہے اور کچھ نہیں بچا، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب تک ایک سٹیبل حکومت نہیں آتی تب تک حالات ایسے ہی رہیں گے تاہم انتخابات ہونے اور حکومت آنے کے بعد حالات بہتری کی جانب گامزن ہو جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو نوجوانوں میں پھیلی مایوسی کو ختم کرنے کے لیے ترقیاتی پراجیکٹس، انٹرپینورشپ پالیسیز لانی چاہئیں تاکہ یہ نوجوان خود ہی اپنے ملک میں کاروبار شروع کر سکیں۔