خیبر میں غیرملکی خاتون کے رونے کی تصاویر وائرل، پولیس رویے پر عوام کی تنقید
ضلع خیبر کے علاقے جمرود میں پولیس نے غیرملکی سیاح جوڑے کو افغانستان جانے سے روک دیا جبکہ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر پولیس کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے کہ پولیس کی نامناسب رویہ اور سخت پوچھ گچھ کے باعث خاتون سیاح رو پڑی اور انہیں مبینہ طور پر ہراساں کیا گیا۔
سیاحوں سے مبینہ ناخوش گوار واقعہ ضلع خیبر کے جمرود بازار میں پیش آیا ہے۔ جو جمرود بازار میں گھومنے اور باب خیبر دیکھنے گاڑی سے اترے تھے۔ سیاحوں کو دیکھ کر مقامی لوگ بھی جمع ہو گئے اور پولیس اہلکار بھی پہنچ گئے، جنہوں نے لوگوں کو ہٹا کر سیاحوں کو ایک طرف لے جا کر پوچھ گچھ شروع کر دی۔ اور مبینہ طور پر آگے جانے سے روک دیا۔ پولیس پوچھ گچھ کے دوران پریشان ہوکر خاتون سیاح رو پڑیں۔
تفصیلات کے مطابق روس سے تعلق رکھنے والی خاتون سیاح نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نے زبردستی ان کی تصاویر کھینچیں، پھر ایک مقامی شخص انہیں اپنے ساتھ لے گیا جہاں انہوں نے رات گزاری، آج صبح جب وہ آ رہے تھے تو جمرود کے قریب 4 پولیس والوں نے انہیں ہراساں کرنا شروع کر دیا، انہوں نے انہیں دھکا دیا اور کہا کہ واپس چلے جاؤ، ان کے مطابق ان میں سے ایک کا نام صدام تھا جس نے کہا کہ میں تمہیں اپنی طاقت دکھاؤں گا۔
دوسری جانب پولیس نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے بتایا کہ غیر ملکی سیاح جوڑے کو مہمانوں کی طرح ڈیل کیا گیا اور انہیں سکیورٹی فراہم کرکے طورخم اور بعد میں پشاور منتقل کردیا گیا۔ خیبر پولیس نے قبائلی رسم و رواج کے مطابق ان کو عزت دی ہے جو کہ پولیس کے ترجیحات میں شامل ہیں۔
ان کے مطابق 26 تاریخ کو غیر ملکی سیاح جوڑا ایک عام ٹیکسی میں بغیر اطلاع کے افغانستان جا رہا تھا، ٹیکسی والے نے ان کو باب خیبر جمرود بازار میں اترا جبکہ بازار میں غیر ملکی جوڑے کو دیکھ کر شہریوں کی ایک بڑی ہجوم ان کے ارد گرد جمع ہوگئی۔ ہجوم کو دیکھ کر پولیس موقع پر پہنچ گئی اور ان سے ضروری کاغذات دکھانے کا کہا، غیر ملکی جوڑا کا تعلق روس سے بتایا جارہا ہے جو انگریزی اور مقامی زبان نہیں سمجھتے۔
پولیس نے بتایا کہ موجودہ سکیورٹی حالات کی پیش نظر انچارج جمرود پوسٹ بعمہ نفری ان کے سیکورٹی کی خاطر راونہ ہوگئے اور طورخم تک انکے ساتھ تھے جہاں امیگریشن عملے نے ویزہ ایکسپائری اور دوسرے کاغذات نامکمل قرار دے کر ان کو افغانستان جانے کی اجازت نہیں دی۔ اس کے بعد دوبارہ پولیس سکیورٹی میں ان کو طورخم سے کارخانوں چیک پوسٹ تک پہنچایا گیا اور باقاعدہ پشاور پولیس کے حوالہ کیا گیا۔