سیاستکالم

عدالت عظمیٰ پھر سے مرکز نگاہ

ابراہیم خان

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت سے لے کر اب تک ملک میں تیسری حکومت قائم ہوچکی ہے۔ یہ حکومتیں نظریاتی اعتبار سے ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھیں تاہم اس کے باوجود ان میں دو قدریں مشترک تھیں۔ ایک تو یہ تینوں ہی اسٹیبلشمنٹ کی بیساکھیاں لے کر اقتدار میں آئیں۔ دوسرا انہوں نے اپنے اپنے وقت کے اعتبار سے عوام کو تسلسل کے ساتھ مہنگائی کے تحفے دئے۔ نگران حکومت کو ماشاءاللہ بیساکھی بھی حاصل ہے اور اس نے مہنگائی برپاء کرنے میں شہباز حکومت کو بھی بخشوا دیا ہے۔ یہ بخشش شہباز حکومت کو اسی طرح ملی جیسے اس حکومت نے دور عمرانی کی مہنگائی عوام کو بھلوا دی۔ یہ دونوں حکومتیں اب ماضی کا حصہ بن چکی ہیں۔

فرق اتنا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کے وزیراعظم عمران خان اٹک جیل میں پابند سلاسل ہیں، تو شہباز شریف سمیت حکومت کے اہم عہدیدار بیرون ملک جا چکے ہیں۔ مسلم لیگ والے لندن میں بیٹھ کر اپنی بیٹھکیں سجا رہے ہیں اور مستقبل کی حکمت عملی بنا رہے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان میں لٹی پٹی تحریک انصاف کے منتشر قائدین نہ جانے کس کس طرح اپنے رابطے استوار کر کے اپنی بقاء کی جنگ لڑنے میں مصروف ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے حالات پر اردو کا وہ محاورہ صادر آتا ہے کہ’ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا۔’ یہ کوئی تخیلاتی توجیہہ نہیں ہے، بلکہ حقیقت میں تحریک انصاف کے بچے کھچے لوگوں کو جہاں سے بھی تھوڑی سی امید دکھائی دیتی ہے وہ اس پر ایک خیالی قلعہ تعمیر کر لیتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے کارکن سوشل میڈیا پر ان دنوں اسی خوش فہمی میں مبتلاء دکھائی دیتے ہیں۔

عمران خان کے خلاف مقدمات میں روزانہ عدالتوں میں جو ریمارکس دئے جاتے ہیں تو کسی ایک ریمارکس کو پکڑ کر سوشل میڈیا پر بھونچال برپاء کر دیا جاتا ہے کہ خان کی رہائی ہونے والی ہے۔ ایک موہوم سی امید پر اس قدر جذباتیت دکھائی جاتی ہے کہ ان کارکنوں پر ترس آنے لگتا ہے جو صرف اپنے مطلب کی بات ہی سننا چاہتے ہیں۔ حقیقت کی دنیا سے دور ان کارکنوں کو یہ بات کون سمجھائے گا کہ موجودہ طاقتور حلقوں کے رہتے ہوئے پاکستان میں تحریک انصاف کے لئے کسی بھی قسم کا کوئی نرم گوشہ میسر نہیں ہے۔

9 مئی کے قابل مذمت واقعات کے بعد اسٹیبلشمنٹ پاکستان تحریک انصاف کو رتی بھر رعایت دینے کی روادار بھی نہیں۔اسی بنیاد پر نگران حکومت کے عہدے داروں کا چناؤ بھی عمل میں لایا گیا ہے۔ وہ پاکستان تحریک انصاف کے خلاف اسٹیبلشمنٹ سے بھی دو ہاتھ آگے دکھائی دے رہے ہیں۔ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ یہ جانتے ہیں کہ اگر انہوں نے اپنی زندگی میں دوبارہ وزارت عظمی کا سنگھاسن حاصل کرنا ہے تو اس کا یہی ایک راستہ ہے کہ اس وقت پوری "تندہی اور وفاداری "کے ساتھ امور ریاست آگے بڑھائیں۔ انوار الحق کاکڑ عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں سے ان کے لئے ابھی زندگی میں مزید مواقع موجود ہیں۔ دوسری طرف اگر بات کی جائے تحریک انصاف کے قائد عمران خان کی تو زندگی کی 70 سے زیادہ بہاریں دیکھنے کے بعد اب وہ اپنی بڑھتی عمر کی وجہ سے اس بات کے متحمل نہیں ہو سکتے کہ آئندہ آنے والے الیکشن میں ان کا یا ان کی پارٹی کا نام نہ ہو۔ تحریک انصاف جو بظاہر اگلے عام انتخابات میں بحیثیت پارٹی دکھائی نہیں دے رہی، وہ اگر واقعی انتخابی عمل سے باہر ہو گئی تو اس بات کے امکان بہت زیادہ ہیں کہ آئندہ اس طرح کی تحریک انصاف دوبارہ نہیں دیکھی جائے گی۔

پاکستان تحریک انصاف کے قائد عمران خان اور ان کے ساتھی بخوبی جانتے ہیں کہ ان کی سر دست کوئی شنوائی نہیں ہونے والی، اس کے باوجود عمران خان خود اور ان کے چند بچے کھچے ساتھی سیاست میں دلیری کا اختیارہ بن چکے ہیں۔ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اسلام آباد ہمایون دلاور نے جس طرح کا فیصلہ عمران خان کے خلاف دیا اس کے بعد اس بات کی توقع کرنا، کہ مستقبل قریب میں عمران خان آزاد ہو جائیں گے، ایک خواہش تو ہو سکتی ہے لیکن موجودہ حالات میں اس سے کسی کامیابی کی توقع کرنا خام خیالی ہو گی۔ عمران خان کے ساتھ اٹک جیل میں پنجاب کی نگران حکومت کے انتظام کے نیچے جو سلوک روا رکھا گیا ہے، اس کے بارے میں جیل کا دورہ کرنے والے جج نے بہت صراحت کے ساتھ بتا دیا ہے کہ اسیر سابق وزیراعظم عمران خان جیل میں کس حال میں ہیں؟ بات صرف یہیں تک محدود نہیں رہتی، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ عمران خان کے خلاف جیل میں رہتے ہوئے نیب اور دیگر عدالتوں میں ان کی جو پیشیاں ہوئیں، اس کے دوران عدم پیشی پر ان کی ضمانتیں منسوخ کی جا چکی ہیں۔ عمران خان کے خلاف عدالتوں کا اس سے زیادہ جارحانہ رویہ اور کیا ہوگا کہ ان کے وکلاء نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان پابند سلاسل ہیں اور یہ سرکار کا کام ہے کہ انہیں پیشی پر عدالت میں حاضر کرے ، لیکن عدالتوں نے ایک نہ سنی اور ان کی ضمانتیں منسوخ کر دی گئیں۔یہ ضمانتیں منسوخ ہونے کے بعد اب اگر جج ہمایون دلاور کا دیا گیا فیصلہ اور اس کی سزا کالعدم بھی ہو جائے، تب بھی عمران خان کو دیگر مقدمات میں گرفتار کر کے جیل میں ہی رکھا جائے گا۔ ان حالات میں پاکستان تحریک انصاف کے قائدین اور کارکنوں کو بخوبی یہ جان لینا چاہیے کہ عمران خان کی گرفتاری فی الحال دور دور تک دکھائی نہیں دے رہی۔

عدالت عالیہ اسلام آباد میں جج ہمایون دلاور کے فیصلے کے خلاف چیئرمین پاکستان تحریک انصاف کے قائد کی درخواست پر جس طرح کیس کو آگے بڑھانے میں تاخیر برتی جا رہی ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ اس تاخیر کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ موجودہ چیف جسٹس عطاء عمر بندیال کی ملازمت سے سبکدوش ہونے تک عمران خان کے مقدمات کو عدالت عظمیٰ پہنچنے سے روکا جائے۔ اس تاخیر کے پیچھے یہ خیال کار فرما ہے کہ 17 ستمبر کو جب قاضی فائز عیسی چیف جسٹس آف پاکستان کا منصب سنبھالیں گے تو چونکہ ان کے دل میں عمران خان کے خلاف کوئی نرم گوشہ نہیں ہوگا تو زیادہ جارحانہ فیصلے دیکھے جا سکیں گے۔ جو لوگ اس تاثر پہ تکیہ کئے بیٹھے ہیں۔ ان کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ احمقوں کی جنت میں رہ رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر کرنے میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت دوشی ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قاضی فائز عیسی اصولوں کے پکے اور آئین و قانون پر چلنے والے جج ہیں۔ ان سے اگر کوئی اس قسم کی امیدیں وابستہ کر رہا ہے کہ وہ انصاف کے خلاف کوئی فیصلہ کریں گے تو یہ کسی بھی طور مناسب نہیں ہوگا بلکہ بعض عدالتی حلقے تو یہاں تک بھی کہتے ہیں کہ قاضی فائز عیسیٰ نے انصاف کا علم تھاما تو ان کے حمایت کرنے والے ہی سب سے زیادہ ان کے خلاف بول رہے ہوں گے۔ اس اعتبار سے ایک بات تو طے ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ کے چیف جسٹس بننے سے ایسا نہیں ہوگا کہ پاکستان تحریک انصاف کے خلاف عرصہ حیات ہی تنگ کر دیا جائے گا بلکہ غالب گمان یہی ہے کہ آئین و قانون کے مطابق فیصلے ہوں گے۔

پاکستان کے موجودہ حالات میں چیف جسٹس آف پاکستان کے بدلنے سے کوئی تبدیلی واقع نہیں ہو گی بلکہ اگر کوئی تبدیلی آنی ہے تو وہ آئندہ عام انتخابات کی صورت میں ہی آ سکتی ہے، جس کے لئے ابھی تک کوئی تاریخ مقرر نہیں کی گئی۔ عالم یہ ہے کہ اب الیکشن کے انتخابات کی تاریخ پر ہی نیا جھگڑا شروع ہو گیا ہے۔ انتخابات کی تاریخ کا یہ تنازعہ، اس ایکٹ کی بنیاد پر شروع ہوا ہے جو صدر مملکت عارف علوی کے فریضہ حج کے لئے جانے کے دوران حکومت نے نگران صدر صادق سنجرانی کے ذریعے جاری کیا تھا۔ مذکورہ ایکٹ کے ذریعے صدر سے انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار لے کر الیکشن کمیشن کو دے دیا گیا تھا۔ آئین کے تحت یہ ترمیم صرف اسی صورت ہو سکتی ہے کہ اگر قومی اسمبلی آئین میں صدر کے اس اختیار کے حوالے سے ترمیم کرتی لیکن اس معاملے میں چونکہ قومی اسمبلی نے ترمیم نہیں کی تھی اس لئے غیر جانبدار ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ آئین میں ترمیم نہ ہونے کی وجہ سے اب بھی صدر کے پاس آرٹیکل 57 کے تحت اختیار ہے کہ وہ انتخابات کی تاریخ دیں۔ حکومت کی رائے اس کے برخلاف ہے ظاہر ہے موجودہ حکومت چونکہ شہباز شریف حکومت کی پالیسیوں کا تسلسل برقرار رکھنا چاہتی ہے اس لئے وہ ایکٹ کے مطابق یہ قرار دے رہی ہے کہ نئے الیکشن رولز 2017 میں ترمیم کے بعد اب انتخابات کی تاریخ دینا صدر کا نہیں بلکہ الیکشن کمیشن کا کام ہے۔ یہ بحث زور و شور سے جاری ہے جس سے انتخابات مزید پیچھے جا رہے ہیں۔

صدر مملکت عارف علوی بھی ان حالات میں پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ انہوں نے آئین پاکستان کے تحت حاصل اختیار کی روشنی میں الیکشن کمیشنر کو آئندہ عام انتخابات کے انعقاد کی تاریخ پر مشاورت کرنے کے لئے ملاقات کے لئے بلایا۔ لیکن الیکشن کمشنر نے ملاقات سے انکار کرتے ہوئے یہ خط لکھ دیا کہ اب صدر سے اس مشاورت کا کوئی فائدہ نہیں اس وجہ سے وہ ملاقات کرنے سے معذرت چاہتے ہیں۔ ملک کے ائینی سربراہ اور پاک فوج کے سپریم کمانڈر کو اس قسم کا جواب دینے سے صاف ظاہر ہے کہ حکومت کے اندر کس قسم کےحالات چل رہے ہیں؟ اداروں کا احترام ایک طرف رکھ دیا گیا ہے۔ ستم تو یہ ہے کہ چیف الیکشن کمشنر نے اپنے ملک کے صدر سے تو ملنے سے معذرت کر لی لیکن انتخابات کے حوالے سے انہوں نے پاکستان میں امریکی سفیر سے ملاقات کر ڈالی. اس ملاقات کے مندرجات تو ابھی سامنے نہیں آئے لیکن ایک پیغام ضرور ملا ہے کہ انتخابی عمل پر حکومت پاکستان یا الیکشن کمیشن جو بھی کر رہا ہے امریکہ اس پر” آن بورڈ” ہے. دوسری طرف صدر مملکت نے الیکشن کمشنر کے خط کو من و عن وزارت قانون کو بھجوا دیا ہے تاکہ اس خط کے بارے میں اس سے قانونی رائے لی جا سکے۔ یہ خطوط کا تبادلہ اسی طرح جاری رہے گا جبکہ عدالتیں بھی لگتی رہیں گی لیکن یہ بات زیادہ قرین قیاس ہے کہ نہ تو چیئرمین پاکستان تحریک انصاف مستقبل قریب میں رہا ہوں گے اور نہ ہی صدر اگلے انتخابات کی تاریخ دے پائیں گے۔ انتخابات کی تاریخ کا فیصلہ ہو یا پھر تحریک انصاف کے قائد عمران خان کی رہائی کا معاملہ، ان دونوں معاملات کا فیصلہ اب سپریم کورٹ ہی کرے گی۔ یہ فیصلہ چاہے موجودہ چیف جسٹس کریں یا پھر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے دور میں فیصلہ ہو۔ ہر دونوں صورتوں میں فیصلہ اب عدالت عظمی میں ہی ہوگا۔

نوٹ: لکھاری کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button