جامعہ پشاور کو ایک اور بحران کا سامنا، ملازمین نے ہڑتال کی دھمکی دیدی
خیبر پختونخوا کی سب سے بڑی یونیورسٹی ایک بار پھر بحران کی شکار ہوگئی ہے۔ ایک جانب یونیورسٹی انتظامیہ کے پاس تنخواہوں کی ادائیگی کیلئے فنڈز نہیں تو دوسری جانب یونیورسٹی کے اساتذہ نے اگلے مہینے سے ہڑتال کی دھمکی دیدی ہے۔
خیبر پختونخوا کی سب سے بڑی یونیورسٹی جامعہ پشاور کے قائم مقام وائس چانسلر پروفیسر جہان بخت نے ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کو مراسلہ ارسال کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جامعہ پشاور کے پاس اگست کے مہینے میں ملازمین کو تنخواہیں دینے کے لئے بھی فنڈز نہیں، یونیورسٹی کو صرف ایک ماہ کے لئے 32 کروڑ 52 لاکھ روپے درکار ہے جس میں 20 کروڑ روپے ملازمین کی تنخواہوں، ساڑھے 3 کروڑ بجلی بل، 10 کروڑ پینشن اور 2 کروڑ روپے دیگر اخراجات کے لئے درکار ہے۔
مراسلے کے مطابق مجموعی طور پر جامعہ کو 32 کروڑ 52 لاکھ 89 ہزار روپے درکار ہیں جس میں یونیورسٹی کے پاس صرف دو کروڑ 97 لاکھ روپے موجود ہیں باقی فنڈز کی یونیورسٹی کو اشد ضرورت ہے، اس طرح فنڈز جاری نہ ہونے کی صورت میں ملازمین کو مشکلات کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی کے دیگر امور متاثر ہوں گے۔
دوسری جانب یونیورسٹی کے ملازمین نے بھی ایک بار پھر سے ہڑتال کی دھمکی دیدی ہے۔ پشاور یونیورسٹی ملازمین کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی (جیک ) نے مطالبہ کیا ہے حکومت کی جانب سے اعلان کردہ تنخواہوں میں اضافہ کی ادائیگی جلد از جلد کرنے کے لئے فوری اقدامات کئے جائیں بصورت دیگر ستمبر میں مطالبات کی منظوری تک مکمل ہڑتال کر کے جامعہ کو بند کریں گے۔
ڈاکٹر محمد عزیر کی زیر صدارت اجلاس میں اساتذہ، کلاس تھری، کلاس فور اور سینیٹیشن سٹاف کے نمائندوں نے شرکت کی۔ اجلاس میں کہا گیا کہ یونیورسٹی کی نام نہاد خودمختاری کا استحصال اس استدعا پر کیا جا رہا ہے کہ یونیورسٹی کو خود مختار ہونے کی وجہ سے اپنے لیے آمدنی پیدا کرنی چاہیے حالانکہ صوبائی حکومت یونیورسٹی کے انتظامی امور میں مسلسل مداخلت کر رہی ہے۔ اجلاس کے شرکاء کا کہنا تھا کہ پاکستان کے تمام سرکاری ملازمین نے اب تک کے تمام الاؤنسز لے چکے ہیں لیکن جامعہ پشاور کے ملازمین ابھی تک ان الاؤنسز سے تا حال محروم ہے جو افسوس ناک امر ہے جس سے ملازمین میں احساسی محرومی بڑھنے لگی اور اضطراب میں مبتلا ہے۔
شرکا کا کہنا تھا کہ دوسری جانب پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی کمیشن نے اربوں روپے خرچ کر کے فیکلٹی ممبران کو ترقی یافتہ ممالک سے پی ایچ ڈی کروانے کے لیے بھیجا اور اب وہ حکومت کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے ملک چھوڑنے پر مجبور ہیں اس کے علاوہ جامعہ پشاور کے ملازمین کو گزشتہ ماہ کی تنخواہوں کی تاخیر سے ادائیگی بھی چانسلر آفس کی غیر سنجیدگی کو ظاہر کرتی ہے۔
خیال رہے کہ پشاور یونیورسٹی ملازمین مسلسل احتجاج کر رہے ہیں۔ رواں برس پشاور یونیورسٹی میں اساتذہ اور دیگر عملے کی ‘جوائنٹ ایکشن کمیٹی’ نے سات مارچ کو سکیورٹی سپر وائزر ثقلین بنگش کے قتل کے بعد ہڑتال کر دی تھی جس سے تدریسی عمل اور انتظامی امور کی انجام دہی معطل ہو گئی اور یہ ہڑتال تقریبا 6 ہفتے تک جاری رہی۔ ہڑتال ختم ہونے کے چند ہفتے تک کلاسز جاری رہیں اور اس کے بعد گرمی کی چھٹیوں کا اعلان کر دیا گیا اب جب ستمبر میں دوبارہ تدریسی عمل شروع ہونا ہے تو یونیورسٹی ملازمین نے دوبارہ سے ہڑتال کی دھمکی دیدی ہے۔
واضح رہے کہ پشاور یونیورسٹی کے 52 شعبوں میں زیر تعلیم 17 ہزار سے زیادہ طلبہ و طالبات ہیں جو جامعہ میں آئے روز کی ہڑتال اور احتجاج کے باعث اپنے تحفظ اور تعلیمی کیریئر کے حوالے سے بے یقینی کا شکار ہیں۔