صحت

کیا واقعی کلائمیٹ چینج خواتین میں جلدی امراض کا سبب بن رہا ہے؟

 

سلمیٰ جہانگیر

پچھلے چند سالوں سے جلد اتنی خراب ہوگئی ہے کہ جب آئینہ دیکھتی ہوں تو سوچتی ہوں کیا واقعی وہی جلد ہے جو کبھی صاف و شفاف ہوا کرتی تھی۔ پشاور کی نیلم جن کی عمر 37 سال ہے بتاتی ہیں کہ 4 سالوں سے جلد کی بیماری میں مبتلا ہوئی ہے۔ علاج کے ساتھ ساتھ گھریلو ٹوٹکے بھی آزما چکی ہیں لیکن کوئی خاطر خواہ نتیجہ سامنے نہیں آیا ان دوائیوں کے ساتھ وقتی طور پر ٹھیک ہوجاتا ہے لیکن دوائی بند کرنے سے دوبارہ وہی مسئلہ ہوجاتا ہے۔

اپنی بیماری کے حوالے سے نیلم کہتی ہیں کہ پہلے ان کے پورے چہرے پر سرخ نشان بن گئے تھے پھر وہی نشان سیاہ ہوگئے۔ نیلم کے مطابق ان کو پہلی مرتبہ اس قسم کی جلدی بیماری ہوئی ہے اس لئے کافی پریشان ہیں۔

جلدی امراض کے حوالے سے لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے ماہر امراض جلد پروفیسر صاحبزادہ محمود نور کہتے ہیں کہ حالیہ بارشیں کلائمیٹ چینج کا نتیجہ ہے جن کی وجہ سے زیادہ ترعلاقوں میں سیلاب آگیا ہے یا وہ علاقے زیادہ نم ہوگئے ہیں جن سے جلدی امراض میں خطرناک حد تک اضافہ ہورہا ہے۔

محمود نور بتاتے ہیں کہ روزانہ کی بنیاد پر لیڈی ریڈنگ او پی ڈی میں 60 سے زائد جلدی امراض سے متاثرہ مریض آتے ہیں جن میں 70 فیصد خواتین شامل ہوتی ہیں۔

انہون نے کہا کہ ان مریضوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ ان جلدی امراض میں اضافے کی وجہ مختلف وجوہات کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی آلودگی بھی ایک اہم وجہ ہے جس سے جلدی امراض میں تشویش ناک حد تک اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔

پروفیسر محمود نور کے مطابق ہوا میں زیادہ نمی جلد کی الرجی کا سبب بنتا ہے،  سیلاب زدہ علاقوں میں پانی بھی آلودہ ہوجاتا ہے جس سے مختلف بیماریوں کے ساتھ ساتھ جلدی امراض بڑھ جاتے ہیں۔ مریض اور خاص کر خواتین سکن کی الرجی اور خارش کا شکار ہوجاتی ہیں۔ نمی میں بیکٹریا اور وائرس تیزی سے پھیلتا ہے جو اس قسم بیماری کی اہم وجہ بنتی ہیں۔

پروفیسر صاحبزادہ محمود نور نے احتیاط کے حوالے سے بتایا کہ احتیاط سے کسی حد تک جلدی امراض پر قابو پایا جا سکتا ہے یا کسی حد تک کمی کی جاسکتی ہیں۔ صاف پانی کا استعمال کیا جائے اور جب بھی سیلاب کے پانی سے ننگے پاوں گزرے توجلد از جلد صاف پانی سے ہاتھ پاوں دھویے جائیں۔ لیکن آب و ہوا میں نمی کی وجہ سے پھیلنے والی جلدی امراض کے لئے کسی بھی مستند ڈاکٹر سے معائنہ بہت ضروری ہے۔

ڈاکٹر آصف خان خٹک اسسٹنٹ پروفیسر پشاور یونیورسٹی انوارمنٹل سائنسز کلائمیٹ چینج  کے حوالے سے کہتے ہیں کہ کسی بھی علاقے کا ایک طویل عرصے تک 30 سے 35 سالوں کا جو درجہ حرارت ریکارڈ ہوتا ہے اس سے علاقے کی آب و ہوا کا تعین کیا جاتا ہے۔ عالمی سطح پر اگر کلائمیٹ چینج کی بات کی جائے تو دنیا کی جو آب و ہوا تبدیل ہورہی ہے  اس سے دنیا کا درجہ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 1850سے لے کر اب تک  دنیا کا جو اوسطا درجہ حرارت ہے وہ تقریبا 1 اعشاریہ 2 سینٹی گریڈ بڑھ چکا ہے جو ایک خطرے کی علامت ہے اسکا اثر پوری دنیا پر پڑ رہا ہے۔ اسکی اصل وجہ گرین ہاوس ایفکٹ ہے اسکو مصنوعی طور پر بڑھایا جا رہا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ کارخانوں سے خارج ہونے والے مادے ،گیس یا تیل کے استعمال سے گیسوں کااخراج بڑھتا ہے جو کہ درجہ حرارت بڑھانے کا سبب بن رہا ہے اسکے اثرات بھی خطرناک ہیں۔

24 سالہ ارم ایک ورکنگ لیڈی ہیں ان کے چہرے پر چھائیاں ہیں وہ سن بلاک کا استعمال کرتی ہیں۔ سکن سپیشیلیسٹ سے اپنا چیک اپ بھی کروایا ہے۔ ہارمون یا خون کی کمی کا بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن پھر بھی پورا چہرا براون دھبوں سے خراب ہوگیا ہے دوائی کے استعمال سے عارضی طور پر بہتر ہوجاتا ہے لیکن جیسے ہی میڈیسن کا استعمال بند کر دیتی ہیں پھر سے چھائیاں نمودار ہوجاتی ہیں۔

اس مسئلے کے حوالے سے ڈاکٹر نے جواب دیا کہ آج کل ماحولیاتی آلودگی بہت بڑھ گئی ہے جس کا جلد پر کافی برے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گرمی کی شدت میں اضافہ ہوگیا ہے تو زیاہ گرمی اور سورج کی تیز کرنوں کی وجہ سے جلد سرخ ہوجاتا ہے جن کو سن برن کہا جاتا ہے۔ اس لئے سن بلاک کا باقاعدہ سے استعمال کرنا بہت ضروری ہوگیا ہے۔ گرمی کی تپش بھی زیادہ ہونے کی وجہ سے سکن کی رنگت کالی یا سیاہ ہوجاتی ہے۔

ڈاکٹرمحمود نور نے مزید بتایا کہ دوسری اہم سکن کی بیماری جو ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے عام ہے جب موسم زیادہ سرد اور خشک ہوتو جلد خشک ہوجاتی ہے، زیادہ جلد خشک ہونے سے جلد پرجھریاں نمودار ہوتی ہیں۔ جن لوگوں کو یہ مسئلہ ہوتا ہے تو انہیں چاہئے کہ وہ ویسلین یا کولڈ کریم کا استعمال کریں ۔ اس قسم بیماری میں جلد کے لئے چکناہٹ ضروری ہے تاکہ جھریوں کو کم کیا جاسکے یا کنٹرول کیا جاسکے۔ مریض یا کوئی بھی عام بندہ سردیوں میں زیادہ گرم پانی کے استعمال سے گریزکریں کیونکہ گرم پانی کے استعمال سے جلد مزید خشک ہوجاتی ہے۔

سکن سپیشیلسٹ نے ماحولیاتی آلودگی کا جلد پر منفی اثرات کے حوالے سے بتایا کہ ماحول میں گرد و غبار میں اضافے کی وجہ سے حساس جلد کی رنگت خراب ہوجاتی ہے۔ گردو غبار میں موجود نقصان دہ مادے جلد کی ساخت کو متاثر کرتے ہیں۔ خواتین کی جلد بہت حساس ہونے کی وجہ سے مرد کی نسبت خواتین کو جلد کے امراض زیادہ لاحق ہوتے ہیں۔

بہت گرم اور ٹھںڈے پانی سے نا مںہ دھوئیں اور نا ہی نہائیں یہ جلد کو کافی متاثر کرتا ہے، اور اپنے چہرے کو ڈھانپنا بہت ضروری ہے دوائی یا علاج کے ساتھ ساتھ احتیاط بھی ضروری ہے۔ ماہر ڈاکٹر محمود نور

اسسٹنٹ پروفیسر آصف خان خٹک ماہر امراض سے اتفاق کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ کلائمیٹ چینج سے ماحولیاتی آلودگی بڑھ گئی ہیں جیسے گرد غبار،تیل گیس کارخانوں سے خارج ہونے والے گیسوں کے اخراج میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے جو ماحولیاتی آلودگی کا سبب بن رہا ہے۔

خواتین کیوں مرد کی نسبت جلد امراض کا شکار ہیں

 خواتین میں کیوں جلد کی بیماریاں مردوں کی نسبت زیادہ ہونے کا خدشہ ہے۔ اس سوال کے سوال کے جواب میں پروفیسر محمود نور نے کہا کہ خواتین حسین ہونے کے لیے قسم قسم کے ٹوٹکے استعمال کرتی رہتی ہیں مثلا زیادہ سفید یا فئیر ہونے کے لئے مختلف قسم کے غلط کریم کا استعمال کرتی ہیں جو جلد کو نقصان پہنچاتی ہیں۔

کریم کے غلط استعمال سےخواتین کی جلد باریک ہوجاتی ہے جو جلد کو مزید حساس کردیتی ہے۔ حساس جلد کے لئے دھوپ خطرناک ہوتا ہے دھوپ میں باہرنکلنے سے جلد پرخارش ہوتی ہے جوخواتین کے چہرے پر چھائیوں کا سبب بن جاتا ہے۔

رنگ گورا کرنے والے کریم کا جلد پر اثرات

پروفیسر محمود نور نے رنگ گورا کرنے والے کریم یا فارمولہ کے حوالے سے کہا کہ یہ بہت نقصان دہ ہوتا ہے لیکن خواتین زیادہ حسین ہونے کے لئے مختلف قسم کے بیوٹی کریمز کا استعمال کرتی ہیں یا فارمولہ کریم کو ترجیح دیتی ہیں۔ یہ تو کم عرصے کے لئے انکی جلد سفید اور اچھی کر دیتی ہیں لیکن تھوڑا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ  چہرے پر یا تو بال نکل آتے ہیں یا جلد حساس ہو کرمختلف بیماریوں میں مبتلا ہوجاتی ہیں۔

ڈاکٹر کے مطابق پاکستان میں عام طور پر ایگزیما،ایکنی،خشکی،گرمی دانے،جھریاں،چھائیاں اور سورج سے حساسیت جیسی بیماریاں ہیں جنکا زیادہ تر خواتین شکار ہوتی ہیں۔ خواتین خود ہی اپنے جلد کو زیادہ میک اپ اورفارمولہ کریموں کے استعمال سے حساس بنا دیتی ہیں جن پر آسانی سے جراثیم حملہ آور ہوتے ہیں۔

خواتین کیااحتیاطی تدابیر اپنائیں؟

اس حوالے سے لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور نیوٹریشن ڈیپارٹمنٹ کی نیوٹریشنسٹ پروفیسر بشریٰ کہتی ہیں کہ خواتین  جلد کے علاج کے ساتھ ساتھ اپنی خوراک کا بھی خاص خیال رکھیں۔ کلائمیٹ چینج کے اثرات صحت پر بھی برے طور پر مرتب ہو رہے ہیں احتیاطی تدابیر سے ان اثرات کو ختم نہیں لیکن کم ضرور کیا جاسکتا ہے۔

جہاں تک خواتین کے جلدی اثرات کا تعلق ہے تو خاص کر وہ خواتین جو اپنے بچوں کو دودھ پلاتی ہیں یا حاملہ خواتین ہیں، ماہواری کے خاص دن، خواتین کو اندرونی جسمانی کمزوری ہوجاتی ہیں خون ،آئرن اور پروٹین کی کمی کی وجہ سے ان  خاص دنوں اپنی خوراک کا خاص خیال رکھیں۔

وہ مزید بتاتی ہیں کہ خواتین کو ان دنوں متوازن غذا کی اشد ضرورت ہوتی ہیں متوازن غذا کا استعمال کریں جیسے دال، اناج ،تازہ پھل، تازہ سبزیاں  وغیرہ۔

متوازن غذا میں آئرن، نمکیات، پروٹین، مختلف قسم کے وٹامنز وغیرہ شامل ہوتے ہیں جو جسمانی صحت کو برقرار رکھتی ہے۔ جب خاتون جسمانی طور پر تندرست ہوگی تو جلدی بیماریاں بھی آسانی سے لاحق نہیں ہوتی کیونکہ بیماریوں کے خلاف ان کی قوت مدافعت بھی مضبوط ہوتی ہیں۔

اسکے ساتھ خواتین تازہ پھل کا جوس، تازہ دودھ  اور صاف پانی کا استعمال زیادہ کریں ان سے ان کی جلد صاف اور ترو تازہ رہے گی اور ہر قسم کی بازاری خوراک اور مشروبات سے پرہیز کیا جائے۔ موسمیاتی تغیر کی وجہ سے خواتین کو  جو جلدی امراض کا سامنا ہے ان پر آسانی سے قابو پایا جا سکتا ہے اگر خوراک کا خاص خیال رکھیں۔ ماہر ڈاکٹر سے ضرور اپنا معائنہ کروائیں اور علاج کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر کے بتائے ہوئے ہدایات پر بھی ضرور عمل کریں۔

دوسری جانب ڈاکٹر صاحبزادہ نور نے بھی احتیاط کے حوالے سے خواتین کو مشورہ دیتے ہیں کہ خواتین سب سے پہلے اپنی ڈائیٹ کا خیال رکھیں۔ تیز دھوپ سے پرہیز کریں ، سن بلاک کا استعمال کریں۔ ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق فیس واش ،بوٹی سوپ یا کریم کا استعمال کریں۔ جو بھی سکن بیماری ہوجاتی ہے تو مستند ڈاکٹر سے معائنہ کروائیں اور خود یا دوسروں کے ٹوٹکوں سے پرہیز کریں۔

کلائمیٹ چینج کے متاثرہ ممالک میں پاکستان کا نمبر کونسا ہے

 دنیا کے سب سے زیادہ متاثرہ 10 ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے، زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں پاکستان کا آٹھواں نمبر ہے۔ پروفیسر آصف خان کہتے ہیں کہ بد قسمتی سے پاکستان وہ ملک ہے جس کا کلائمیٹ چینج میں اتنا اہم کردار نہیں ہے لیکن متاثر سب سے زیادہ ہو رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ کاربن کا اخراج کلائمیٹ چینج کی سب سے بڑی وجہ بتائی جاتی ہے اور دنیا میں کاربن کا اخراج کرنے والے ممالک میں پاکستان کا نمبر 32 واں ہے۔

20 سالوں میں دنیا کا درجہ حرارت  ڈیڑھ درجے سینٹی گریڈ تک بڑھ جائے گا جسکو ماہرین بہت بڑا خطرہ قرار دے رہے ہیں کیونکہ اس سے موسم کا مزاج مزید بگڑے گا۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button