رواں برس اب تک 112 کان کن مختلف حادثوں میں جان کی بازی ہار چکے ہیں: سموا
عبدالستار
پچھلے ایک ہفتے کے دوران ضلع شانگلہ سے تعلق رکھنے والے چار کان کن جان کی بازی ہارگئے۔ ضلع شانگلہ کے کان کن مزدوروں کی آگاہی اور حقوق پر کام کرنے والی تنظیم (سموا) کوئل مائینز ورکرز ویلفئیر ایسوسی ایشن شانگلہ کے جنرل سیکرٹری عابد یار کے مطابق رواں برس اب تک 112 مزدور مختلف حادثوں میں جان کی بازی ہارچکے ہیں جبکہ دو کان کن ابھی بھی پشاور کے ہسپتال میں موت اور زندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
عابد یار کا کہنا ہے کہ حالیہ جاں بحق ہونے والوں میں تحصیل الپوری کا رہائشی 23 سالہ شاہد اللہ شامل ہے جو ایبٹ آباد کے سوپ سٹون مائن میں جان بحق ہوگیا۔ شانگلہ کا نوجوان شاہ رحمن بلوچستان میں کوئلے کی کان میں بجلی کرنٹ سے اپنی زندگی ہارگئے جبکہ گاؤں پاگوڑی کے نوجوان ضیاء الدین مائن میں گیس بھرنے سے مائن کے اندر جاں بحق ہوگئے۔ اسی طرح درہ کوئل مائن میں شانگلہ کے گاؤں بنڑکوزتلکیٹ کے نوجوان وحید ولد نورحسن کام کے دوران اپنی زندگی ہارگئے۔
ملاکنڈ ڈویژن کا علاقہ شانگلہ کوئلے کی کانوں میں کان کن مزدوروں کی وجہ سے پورے ملک میں جانا جاتاہے تاہم یہاں کے زیادہ تر گھرانے کانوں میں پیاروں کو کھوچکے ہیں۔
نئی مردم شامری کے مطابق ضلع شانگلہ کی آبادی آٹھ لاکھ 91 ہزاردو سو 52 افراد پر مشتمل ہیں جس کا بارڈر ضلع بونیر ،سوات اور ضلع تورغر کے ساتھ ملا ہوا ہے۔
عابد یار نے بتایا کہ ضلع شانگلہ کے 75 فیصد مزدور ملک کے مختلف علاقوں میں کوئلے کے کانوں میں کان کنی کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ شانگلہ کے ہر گھرانے سے مزدور کوئلے کے کانوں میں مزدوری کرتے ہیں جس میں اکثریت نوجوانوں کی ہیں۔
عابد یار نے بتایا کہ اس علاقے میں مزدوری کرنے کے لئے کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے جس کی وجہ سے نوجوان اپنے بڑوں سے سیکھا ہوا کام کرتے ہیں اور کوئلے کی کانوں میں کان کنی کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کوئلے کی کانوں میں کام کرنے سے ضلع شانگلہ میں ہزاروں لوگ معؤور ہوچکے ہیں جبکہ ہر سال دوسو سے ڈھائی سو تک مزدورکان کنی کے دوران اپنی زندگی کھو دیتے ہیں اور بیس مرد ہر سال مستقل طور پر معذور ہوجاتے ہیں کیونکہ کوئلے کی کان کن کام کے دوران گردوغبار سے پھیپڑوں کی بیماری میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
سموا کے جنرل سیکرٹری عابد یار نے بتایا کہ اس وقت پشاور کے دو ہسپتالوں میں شانگلہ کے دو مزدور زندگی اور موت کی جنگ لڑرہے ہیں جبکہ ڈاکٹروں نے ان کی حالت انتہائی تشویشانک بتائی ہے۔ انہون نے کہا کہ رواں سال کے شروع مہینوں میں کان کنوں کی اموات رپورٹ نہیں ہورہے تھے جس پر علاقے میں خوشی تھی لیکن اب ملک کے مختلف علاقوں میں پے درپٌے کوئلے کی کانوں میں حادثے رونما ہوجاتے ہیں۔
عابد یار نے کہا کہ حکومت کو چاہیئے کوئلہ کےکانوں میں کام کرنے سے معذور افراد کے خاندانوں کے ساتھ تعاون کریں جبکہ کوئلے کانوں میں مزدوروں کے لئے سیفٹی کا بندوبست کریں۔ خیبر پختوںخوا کے متحدہ لیبر فیڈریشن کے صدرمحمد اقبال نے بتایا کہ کوئلے کی کان کنوں کو کام کے دوران سیفٹی ایکویپمنٹ مہیا نہیں کی جاتی جس کی وجہ سے کوئلے کی کان کن خادثے کا شکار ہوجاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کوئلے کانوں کے مالکان صرف اپنا فائدہ تلاش کرتے ہیں اور مزدوروں کی صحت کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔ محمد اقبال نے بتایا کہ کوئلے کے مائن کے مالکان مزدروں کی سیفٹی قوانیں کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور اس پر کوئی عمل نہیں کررہا۔
انہوں نے کہاکہ مائن کے مالک زیادہ سے زیادہ پچاس ہزار سے لے کر ایک لاکھ روپے تک جرمانہ کیا جاتاہے جبکہ سیفٹی سامان پر لاکھوں پر خرچ ہوتے ہیں جس کی وجہ سے مالک خوشی سے جرمانہ دینے کو تیار ہوتے ہیں اور مزدور ہر وقت خطرے سے سامنا کرنا ہوتاہے۔
لیبرفیڈریشن کے صدر محمد اقبال نے کہاکہ جب تک لیبر سیفٹی کی قوانین میں تبدیلی سخت سزائیں نہیں مقرر کی جاتی اور مائن کے مالک کے خلاف قتل کامقدمہ درج نہیں کیا جاتا تب تک کوئی بھی ان مزدوروں کا خیال نہیں رکھے گا۔