ابراہیم خان
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی نااہلی ملک میں اگلے عام انتخابات کی راہ میں غیر اعلانیہ طور پر سب سے بڑی رکاوٹ قرار دی جا رہی تھی۔ یہ رکاوٹ کمزور بنیادوں پر ہی صحیح لیکن وقوع پذیر ہو چکی ہے۔ اسلام آباد ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ہمایون دلاور نے ریکارڈ مدت میں عمران خان کے مقدمے کی سماعت پوری کر کے فیصلہ جاری کر دیا۔ اس فیصلے کے تحت عمران خان پانچ برس کے لئے کسی بھی انتخاب لڑنے سے نا اہل ہو گئے ہیں۔ عمران خان کے وکلاء نے اس فیصلے کو عدالت عالیہ اسلام آباد میں چیلنج کر دیا ہے۔ جج ہمایون دلاور نے اس مقدمے کا فیصلہ جس قدر عجلت میں کیا اسے دیکھتے ہوئے حکومتی عہدیدار نجی گفتگو میں یہ بات کر رہے ہیں کہ عمران خان کے خلاف یہ کیس اس قدر کمزور ہے کہ وہ جلد اس کیس میں بری ہو جائیں گے۔
قانونی ماہرین کے مطابق اس بریت کو بظاہر روکا تو نہیں جا سکتا، لیکن اس میں تاخیر کرنے کی غرض سے یہ حربے ضرور استعمال کئے گئے کہ اٹک جیل میں قید عمران خان کے وکلاء کو ان تک رسائی نہیں دی گئی۔ یہ رسائی اس لئے نہیں دی جا رہی تھی تاکہ عمران خان کو زیادہ سے زیادہ دیر اٹک جیل میں رکھا جائے۔ اٹک جیل میں سہولیات کا پہلے ہی فقدان ہے۔ سہولیات میں کمی کی وجہ سے عام طور پر اس جیل میں انہی قیدیوں کو لایا جاتا ہے، جنہیں انتظامیہ زیادہ سے زیادہ جسمانی اور ذہنی ٹارچر دینا چاہتی ہو۔ جیل میں عمران خان کو زیادہ تکلیف سے دوچار کرنے کے لئے بقول عمران خان کے ان کے سیل میں مکھیاں اور مچھر چھوڑ دئے گئے تاکہ عمران خان زیادہ تکلیف سے دوچار ہو۔ عمران خان کے حوالے سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ انہیں ڈیتھ سیل میں رکھا گیا ہے۔
جیل میں اس قسم کا رویہ رکھنے کی یہی وجہ ہے کہ حکومت بالخصوص مسلم لیگ نون یہ چاہتی ہے کہ تحریک انصاف کے سربراہ اور ان کے چاہنے والوں کو زیادہ سے زیادہ ذہنی کوفت سے گزارا جائے۔ اس پالیسی کا حکومت کو کسی حد تک فائدہ بھی ہو رہا ہے۔ یہ خبریں سن کر عمران خان کو چاہنے والے اگرچہ کم تعداد میں صحیح لیکن احتجاج کے لئے جب نکلتے ہیں تو انہیں دھر لیا جاتا ہے۔ حکومت یہ جانتی ہے کہ عمران خان کو زیادہ دیر اس مقدمے میں جیل کے اندر نہیں رکھا جا سکتا۔ اب اس کی یہ کوشش ہے کہ بھلے ضمانت کے بعد عمران خان باہر آجائیں لیکن ان پر بدعنوانی کے مقدمات چلتے رہیں۔ گویا بدنامی کے حوالے سے ان کی خبریں بالکل اسی طرح چلتی رہیں جس طرح سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے نام کے ساتھ بدعنوانی نتھی ہوگئی تھی۔ لیگی ذرائع کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ نون اب اس کم سے کم درجے کی لیول پلیئنگ فیلڈ پر مطمئن ہے کہ یہی کافی ہے کہ جس طرح میاں نواز شریف کو بدعنوان کہا جاتا رہا ہے تو اب عمران خان بھی عدالتی فیصلے کے نتیجے میں بدعنوان کہلائے جائیں گے۔ لیگی حلقے اس بات کا عندیہ بھی دے رہے ہیں کہ اگلے عام انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ نون کے پاس جو بیانیہ ہوگا، اس میں انتخابی مہم کے دوران عمران خان کو بدعنوانی کے مقدمے میں سزا کا ذکر بڑھ چڑھ کر کیا جائے گا۔مسلم لیگ نون تو عمران خان کی گرفتاری کے حوالے سے اس قدر ہی اطمینان حاصل کر چکی ہے۔البتہ اسے اس بات کی توقع ضرور ہے کہ عمران خان کے خلاف دو بڑے مقدمات سمیت درجنوں ایسے مقدمات ہیں جن میں انہیں مزید الجھا کر رکھا جائے گا۔
الجھا تو حکمران اتحاد بھی پاکستان تحریک کے انصاف کے مسئلے پر دکھائی دیتا ہے۔ اتحاد کی بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے خیالات نون لیگ اور جے یو ائی سے مختلف دکھائی دیتے ہیں۔نواز لیگ اور مولانا فضل الرحمن کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو تو اگر ان کے بس میں ہو تو صفحہ ہستی سے ہی اڑا کر رکھ دے، جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی ایسا نہیں چاہتی۔ پیپلز پارٹی کی تحریک انصاف سے یہ انسیت جمہوریت کی فروغ میں نہیں ہے بلکہ اس کا محرک کچھ اور ہے۔ پیپلز پارٹی بظاہر تو یہی کہہ رہی ہے کہ جمہوری کلچر میں کسی جماعت پر پابندی عائد نہیں کی جا سکتی لیکن اصل بات یہ ہے کہ اگر سابق صدر اصف علی زرداری نے اپنے فرزند ارجمند بلاول بھٹو کو وزیراعظم کے عہدے پر متمکن کرنا ہے تو اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ مسلم لیگ نون پنجاب میں کم سے کم نشستوں تک محدود رہے۔ یہ دونوں بڑی جماعتیں اس وقت آپس میں جتنا بھی شیر و شکر دکھائی دیں۔ ان کی یہ ساری قربت اس وقت ہوا ہو جائے گی جب عام انتخابات کا اعلان ہوگا۔
عام انتخابات کا اعلان ہوتے ہی نواز لیگ اور پیپلز پارٹی اپنی اپنی روایت کو بڑھاتے ہوئے نورا کشتی کا نیا راؤنڈ شروع کردیں گی۔ایک دوسرے کے ایسے کپڑے اتارے جائیں کہ جیالے اور متوالے دونوں اپنی اپنی بھوک وافلاس کو بھلا کر سرگرم ہوجائیں گے۔ایک دوسرے کے خلاف گالم گلوچ کی حد تک جانے والی یہ نورا کشتی عام انتخابات کے نتائج کے ساتھ ہی اگلے کسی نئے مقابلے تک تھم جائے گی اور یہ دونوں جماعتیں پھر سے شیر و شکر ہو کر اگلے راؤنڈ تک ہنسی خوشی رہنا شروع کر دیں گی۔بلاول بھٹو جو خود کو نئی نسل کا لیڈر قرار دلوانے کی سر توڑ کوشش کر رہے ہیں،نے پیر کے روز اسمبلی میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ ان کے والد بزرگوار اور مریم نواز کے والد بزرگوار ایسی صورتحال بنائیں کہ آگے ان دونوں کے لئے سازگار ماحول بن جائے۔ بلاول کے یہ الفاظ تھے کہ ”
آصف زرداری صاحب اور میاں نواز شریف صاحب کو ایسے فیصلے کرنے چاہئیں جن سے میرے اور مریم نواز کے لئے سیاست آسان ہو”بلاول کی کی ان باتوں سے اگر ایک طرف اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ دونوں کے ابا میں وزارت عظمیٰ کے معاملے پر کھینچا تانی ہو رہی ہے تو یہ تو دوسری طرف ان کی خواہش دیکھئے کہ جیسے پاکستان کی ریاست صرف ان دونوں کے لئے ہی رہ گئی ہے۔
آصف علی زرداری جو میدان سیاست کے بڑے گرو ہیں، وہ یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ اگر پنجاب میں عام انتخابات کے موقع پر پاکستان تحریک انصاف مقابلے میں نہ ہوئی، تو پھر پنجاب کی نسبتاَ زیادہ نشستیں نواز لیگ کی جھولی میں چلی جائیں گی جس کی وجہ سے بلاول کے وزیراعظم بننے کا معاملہ دور ہو جائے گا۔ اس لئے آصف علی زرداری پاکستان تحریک انصاف کی محبت میں نہیں بلکہ اپنے بیٹے کو وزیراعظم بنانے کی خواہش کے پیش نظر چاہتے ہیں کہ عمران خان اینڈ کمپنی میدان سیاست میں رہے۔
آصف علی زرداری اس قدر جہاں دیدہ ہیں کہ اگر بات صرف سیاسی میدان تک رہتی، تو وہ اب تک سیاسی حلقوں کو اس بات پر منا چکے ہوتے کہ عمران خان کو انتخابات میں حصہ لینے دیا جائے۔ ان کی مشکل یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ بھی پاکستان تحریک انصاف کے نو مئی کے واقعات کی وجہ سے اس سے شاکی دکھائی دیتی ہے۔ حقیقی معنوں میں اب سابق صدر آصف علی زرداری کی سیاسی حکمت و بصیرت کا امتحان ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ کو کس طرح اس بات پر راضی کرتے ہیں کہ تحریک انصاف کو الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی جائے۔ اس اجازت کا جیسے پہلے ذکر ہوا فائدہ پاکستان پیپلز پارٹی کو ہو سکتا ہے، جس کے امیدوار بلاول بھٹو ہیں.
دوسری طرف اگر نواز لیگ کی بات کی جائے تو ان کی طرف سے وزارت عظمی کے لئے اب بھی پہلی ترجیح (پابندیاں ختم ہونے کی صورت میں )میاں نواز شریف, دوسری ترجیح نواز شریف کے حامیوں کی طرف سے مریم نواز ہیں, جبکہ زبانی کلامی حد تک میاں شہباز شریف تیسری ترجیح ہیں۔ ان ترجیحات کے مقابلے میں دوسری طرف مقتدر حلقے یہ چاہ رہے ہیں کہ مستقبل کے پاکستان میں ان دونوں جماعتوں کے قائدین اور ان کی اولادوں کی بجائے اہل قیادت کو سامنے لایا جائے۔اس پلان پر کس طرح عمل درامد ہوگا؟ وہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا اور یہ وقت زیادہ دور نہیں، اس میں صرف چند گھنٹے باقی ہیں۔ نئے نگران وزیر اعظم کی تقرری سے بہت کچھ واضح ہو جائے گا۔البتہ وزیراعظم شہباز شریف بدھ کے روزقومی اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری صدر مملکت کو ارسال کردیں گے۔اس اعتبار سے صدر بھی نہ صرف اس سمری کی منظوری بلکہ بعض دوسرے تعاون کی وجہ سے خاصے اہم ہوچکے ہیں جس ذکر پھر کسی وقت کیا جائے گا۔