انسانی سمگلنگ: ‘آپ صرف پیسے دیں نجیب اللہ کو آسٹریلیا پہنچانا ہمارا کام ہے‘
محمد بلال یاسر
باجوڑ کے علاقے ناوگئی سے تعلق رکھنے والے 26 سالہ نجیب اللہ جب غیرقانونی طور پر یورپ روانہ ہوئے تو انہیں علم نہ تھا کہ وہ یورپ اور بیرون ممالک کے چمک دھمک والی زندگی کا خواب آنکھوں میں سجائے انسانی سمگلرز کے ہاتھوں لگ جائے گئے۔
چار ماہ قبل جب وہ گھر سے نکلے تو گھر والوں کو بتایا کہ وہ یورپ جا رہے ہیں تاہم کچھ روز بعد انہوں نے دوبارہ اطلاع دیتے ہوئے کہا کہ وہ آسٹریلیا روانہ ہوئے اور اس کے بعد انہوں نے گھر والوں سے رابطہ نہیں کیا۔
یہ 3 جولائی کا دن تھا جب ایجنٹ کی جانب سے نجیب اللہ کے خاندان والوں کو ان کی دریا برد ہوکر مرنے کی اطلاع ملی۔
خاندان والوں کے مطابق انہوں نے ایجنٹ کو مزید پیسے بھیجے تاکہ کسی طرح انہیں اپنے جگر گوشے کی لاش مل جائے مگر تین ہفتے گزرنے کے بعد خاندان والوں نے 21 جولائی کو ان کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھا کر لاش ملنے کی امید بھی ختم کر دی۔
نجیب اللہ کے قریبی رشتہ دار محمد جمال کے مطابق اس واقعے نے ان کے خاندان کو بہت زیادہ دکھی کر دیا ہے کیونکہ نجیب نے بڑی محنت سے پال پوس کر نوجوانی کی زندگی میں قدم رکھا تھا تاہم ملک میں غیر یقینی معاشی صورتحال کے سبب زیادہ تر نوجوان اس طرح غیرقانونی راستوں پر چل کر ہمیشہ کے لیے دور چلے جاتے ہیں۔
وہ سمجھتے ہیں کہ ایجنٹوں نے نجیب اللہ کو جھوٹے خواب دکھائے تھے، ہمارے بار بار اصرار پر بھی وہ بضد تھے کہ آپ صرف پیسے دیں نجیب اللہ کو آسٹریلیا پہنچانا ہمارا کام ہے لیکن آج جب نجیب اللہ اس دنیا میں نہیں ہے تو اب ہمیں انصاف کون فراہم کرے گا۔
باجوڑ کے تحصیل ماموند سے تعلق رکھنے والے ایجنٹ جمال ( فرضی نام ) خود بھی کئی بار یورپ جا چکے ہیں۔ بڑھتی عمر اور بچوں کو یورپ پہنچانے کے بعد وہ اب دوسرے نوجوانوں کو یورپ اور دیگر بیرون ممالک کے لیے بھیجتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ہمارا مقصد علاقے سے غربت کا خاتمہ ہے جبکہ یہ اسی صورت ممکن ہے کہ زیادہ سے زیادہ نوجوان بیرون ممالک جا کر اپنا اور اپنے خاندان کا مستقبل محفوظ بنا لیں، کیونکہ پاکستان میں مسلسل معاشی عدم استحکام مزید مشکلات پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ غیر قانونی راستے سے بیرون ممالک جانے والے نوجوان کی تعداد، خاص کر قبائلی علاقوں سے، سالانہ ہزاروں میں ہیں کیونکہ یہاں کاروبار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں جبکہ ان کے بقول ہم ہر صورت اپنے کسٹمرز کی حفاظت یقینی بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کیلئے ہم نے باقاعدہ ایک چین بنائی ہے جو یہاں سے لیکر آخری مقام تک پھیلی ہوئی ہے۔
انسانی سمگلنگ کا روک تھام کیسے ممکن ہے؟
خیبر پختونخوا کے سابق گورنر انجنیئر شوکت اللہ خان نے کہا کہ انسانی سمگلنگ کے حوالے سے زیادہ تر ممالک میں موجود قوانین ناکافی ہیں اور ان کو فوری طور پر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
ان کے مطابق تمام ملکوں کو انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے لئے جامع اور مؤثر قوانین مرتب کرنے چاہیئں تاکہ ان اسمگلرز اور ان کی مدد کرنے والے اداروں کو قانون کے شکنجے میں لایا جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ جب وہ وفاقی وزیر سیفران تھے اس بابت انہوں نے اس وقت کے کیبنٹ کو سفارشات بھی پیش کی تھی کیونکہ یہ رجحان بہت خطرناک ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ قانونی طریقے سے دوسرے ممالک جانے کیلئے حکومتی سطح پر انتظامی عمل بہتر بنایا جائے، امیگریشن کے عمل کو سہل بنایا جائے تاکہ نوجوان غیر قانونی راستے اختیار کرنے کو ترجیح نہ دیں۔
30 جولائی انسانی اسمگلنگ کے خلاف آگاہی کا عالمی دن
انسانی اسمگلنگ کے خلاف آگاہی کا عالمی دن ہر سال 30 جولائی کو منایا جاتا ہے، اس دن کا مقصد بین الاقوامی سطح پر اسمگلنگ کی روک تھام کیلئے شعور اجاگر کرنا ہے۔
انسانی اسمگلنگ ایک گھناؤنا جرم ہے اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے، دنیا کا ہر حصہ اس جرم سے شدید متاثر ہے۔ اس دن کا مقصد مختلف وجوہات کی بنا پر انسانی اسمگلرز کے بنائے ہوئے چنگل میں پھنس جانے والے افراد کی صورتحال کو اجاگر کرنا ہے۔
اقوام متحدہ کے آفس برائے منشیات و جرائم UNODC کے مطابق افراد کی اسمگلنگ ایک سنگین جرم اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے، ادارے کے مطابق ہر سال ہزاروں مرد ،عورتیں اور بچے زبردستی، ڈیسپریشن یا بہتر زندگی کے خواب کی تلاش میں اپنے ہی ملک کے اور پھر بین الاقوامی انسانی سمگلرز کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جس کے باعث دنیا کا ہر ملک اس سے متاثر ہے۔