ٹماٹر کی فصلیں وقت سے پہلے سوکھ گئیں، کیا یہاں بھی انڈیا جیسی قلت آنے والی ہے؟
افتخار خان
سالن میں زیادہ ٹماٹر ڈالنے پر میاں بیوی کے مابین جھگڑا— ڈاکوؤں نے ٹماٹر سے بھرا ٹرک لوٹ لیا—- ٹماٹر کی تجارت سے کاشتکار ایک ہی سیزن میں کروڑ پتی بن گیا۔۔۔۔ ٹماٹروں سے متعلق ایسی خبریں آج کل انڈیا میں ٹاپ ٹرینڈ پر ہیں۔
اس کی وجہ ہمسایہ ملک میں طوفان اور سیلابوں کی وجہ سے ٹماٹر کی کم پیداوار اور دوسرے علاقوں تک رسائی میں مشکلات ہیں جن کی وجہ سے وہاں قیمتیں 150 سے 400 انڈین روپے (1200 پاکستانی روپے) فی کلو تک چل رہی ہیں۔
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں بھی ٹماٹر کی کم پیداوار کی وجہ سے آئندہ دنوں میں حالات اگر انڈیا جیسے نہ بھی ہوئے تو اس سے ملتے جلتے ضرور ہوں گے۔
پچھلے ایک مہینے میں صوبہ میں ٹماٹر کی قیمتوں میں دو گنا سے تین گنا تک اضافہ ہوا ہے۔ جون میں 40-50 روپے میں فروخت ہونے والے ٹماٹر کی قیمت اب 150 سے تجاوز کر چکی ہے۔ قیمتوں میں اضافہ دراصل صوبہ کے میدانی علاقوں میں ٹماٹر کی فصل کا وقت سے پہلے ختم ہو جانا ہے۔ ان علاقوں میں فصل سے اگست کے وسط تک پیداوار حاصل کی جاتی ہے تاہم رواں سال حیران کن طور پر فصلیں جون کے آخر اور جولائی کے آغاز سے ہی سوکھ گئی ہیں جس کی بڑی وجہ موسمیاتی تبدیلیوں کو قرار دیا جا رہا ہے۔
مردان سے تعلق رکھنے والے کاشتکار اور زرعی ادویات ڈیلر سید کمال شاہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رواں سال ڈھائی ایکڑ رقبے پر ٹماٹر کی فصل کاشت کی تھی جس پر 5 لاکھ روپے خرچہ آیا تھا لیکن مجموعی کمائی 2 لاکھ روپے رہی۔ سید کمال شاہ، جو پچھلے 15 سالوں سے ہر سیزن میں ٹماٹر کی فصل اگا رہے ہیں، کہتے ہیں کہ پچھلے تین چار سال سے یہ فصل یا تو نہایت کم منافع دیتی ہے یا گھاٹے کا سودا ثابت ہوتی ہے۔
سید کمال شاہ کہتے ہیں کہ رواں سال جیٹھ کے مہینے میں (وسط مئی سے وسط جون تک) رات کو حیران کن طور پر اوس پڑتی تھی اور دن کو حسب معمول سورج کی روشنی انتہائی تیز ہوتی تھی۔ درجہ حرارت میں اس ڈرامائی اتارچڑھاؤ نے اس فصل پر بہت برے اثرات مرتب کیے اور تبھی سے اس پر مختلف بیماریاں حملہ آور ہوئیں۔ رواں سال فصل کو ارلی بلائیٹ، لیٹ بلائیٹ سمیت مختلف بیماریوں نے متاثر کیا جس پر کسانوں نے بہت دفعہ سپرے بھی کیے جس سے ان کے اخراجات مزید بڑھے لیکن فائدہ کچھ نہیں ہوا اور ٹماٹر کے کھیت تمام کے تمام سوکھ گئے۔
زرعی ماہر اور زرعی تحقیقاتی ادارے ترناب فارم کے پرنسپل ریسرچ آفیسر ایوب جان بھی مردان کے کاشتکار کے موقف کی تائید کرتے ہیں۔ ان کے مطابق دن اور رات کو درجہ حرارت میں ڈرامائی تبدیلی سے مختلف قسم کے فنجائی ٹماٹر پر حملہ آور ہوتے ہیں جس کی وجہ سے یہ پودے ارلی اور لیٹ بلائیٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔
زرعی ماہر بتاتے ہیں کہ ٹماٹر کے پودے کے لئے 26 سے 34 تک درجہ حرارت چاہئے ہوتا ہے لیکن پچھلے چند سالوں سے دیکھا جا رہا ہے کہ اس سیزن میں اسے یہ درجہ حرارت بہت کم ملتا ہے۔ پچھلے دو سالوں میں جیٹھ اور ہاڑ کے مہینوں میں ہمارے میدانی علاقوں میں (وسط مئی سے وسط جولائی تک) سورج کی شعاعیں بہت تیز ہو جاتی ہیں اور ہوا میں نمی کم ہو جاتی ہے۔ ٹماٹر کی فصل کے لئے ہوا میں 50 سے 55 فیصد تک نمی زیادہ موزوں ہوتی ہے۔ کم نمی کی وجہ سے زمین اور پودے دونوں بخارات خارج کرتے ہیں اور پودے کمزور ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں پودوں سے پیداوار حاصل کرنے کے لئے کاشتکار کو یا تو ہر دوسرے دن کھیت کو پانی دینا چاہئے اور یا ایک روایتی طریقہ اختیار کرنا چاہئے جس میں پودوں کو سایہ فراہم کرنے کے لئے ہر دس فٹ پر جنتر کے پودے لگائے جائیں۔
ایوب جان کہتے ہیں کہ مانسہرہ اور دوسرے معتدل آب و ہوا والے علاقوں میں ٹماٹر کی فصل سے مئی سے اگست تک پیداوار حاصل کی جاتی ہے تا ہم رواں برس ان علاقوں میں بھی فصلیں جولائی کے آغاز میں ہی سوکھ گئی ہیں۔
زرعی ماہر کا کہنا ہے کہ پاکستان ٹماٹر کی فصل کے لئے مکمل طور پر ہائبریڈ بیجوں پر انحصار کرتا ہے۔ یہ بیج چونکہ باہر ممالک سے منگوائے جاتے ہیں اس لئے کبھی کبھار یہاں کا موسم اور آب و ہوا اس کے لئے زیادہ موزوں ثابت نہیں ہوتے۔ حکومت کو چاہئے کہ ہائبریڈ کے ساتھ ساتھ زرعی تحقیقاتی مراکز کو دنیا بھر سے اچھی کوالٹی کے عام بیج بھی فراہم کرے جن پر مزید تحقیق کے بعد انہیں مارکیٹ میں لایا جا سکتا ہے۔
ٹماٹر کی عالمی منڈی میں پاکستان کہاں پر ہے؟
عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلی کی وجہ بننے والی گیس، کاربن کے اخراج میں پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے لیکن کلائمیٹ چینج پرفارمنس انڈیکس کے 2017 کی رینکنگ کے مطابق یہ ملک ان تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے ٹاپ 10 ممالک میں شامل ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سب سے زیادہ زراعت پر ہوتے ہیں۔ پاکستان کی بڑی فصلیں گندم، گنا، چاول اور کپاس ہیں لیکن چھوٹے چھوٹے رقبے پر ٹماٹر، آلو، چنا وغیرہ بھی کاشت کیے جاتے ہیں جو کہ نیشنل فوڈ سکیورٹی اور فوڈ کلچر میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
ٹماٹر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والی فصلوں میں شامل ہے جس کی پیداوار میں کمی بیشی ملک میں سماجی اور سیاسی انتشار کو بھی جنم دیتی ہے۔
دنیا میں سب سے زیادہ ٹماٹر کی پیداوار چین میں ہوتی ہے۔ عالمی ادارہ برائے خوراک کے 2016 کی رپورٹ کے مطابق چین میں سالانہ 56.4 ملین ٹن ٹماٹر کی پیداوار ہوتی ہے۔ جبکہ دوسرے، تیسرے او چوتھے نمبر پر سلسلہ وار انڈیا، امریکہ اور ترکی ہیں۔ پاکستان اس لسٹ میں 35ویں نمبر پر ہے۔ رپورٹ مرتب ہونے والے سال یعنی 2016 میں پاکستان کی مجموعی پیداور 585 ہزار ٹن تھی جبکہ 2022 میں یہ پیداوار مزید کم ہو کر 541 ہزار ٹن تک گر چکی ہے۔
دوسری جانب جرنل آف اینیمل اینڈ پلانٹس میں شائع ہونی والے ایک تحقیقی مقالے کے مطابق ٹماٹر کی پیداوار میں عالمی سطح پر پاکستان کا 34واں پوزیشن ہے لیکن زیرکاشت رقبہ کے لحاظ سے یہ نمبر 11واں ہے۔ زیادہ رقبہ زیرکاشت لانے کے باوجود کم پیداوار کی بنیادی وجوہات میں موسمیاتی تبدیلی سرفہرست ہے جس کی وجہ سے پودوں کی صحیح نشونما نہیں ہوتی اور نتیجتاؑ پیداوار کم ہو جاتی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ٹماٹر کے پودے اور دانے پر مختلف قسم کے حشرات اور بیماریوں کے حملے عام ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے پچھلے کئی سالوں سے ٹماٹر کی قومی ضرورت بھی متاثر ہوئی ہے۔
پاکستان میں فی ہیکٹیئر سے ٹماٹر کی پیداوار 9 اعشاریہ 5 ٹن ہے جبکہ عالمی سطح پر فی ہیکٹیئر پیداوار کی شرح 38 ٹن تک ہے۔ منسٹری آف نیشنل فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ کے 2017 کے ڈیٹا کے مطابق پاکستان میں ٹماٹر کی فی ہیکٹیئر سب سے زیادہ پیداوار پنجاب میں ریکارڈ کی گئی تھی جو کہ 13 ٹن تھی؛ بلوچستان 11 ٹن، خیبر پختونخوا 9 اعشاریہ 5 ٹن جبکہ سندھ میں 7 اعشاریہ 4 ٹن فی ہیکٹیئر ریکارڈ کی گئی تھی۔
ٹماٹر اور گھریلو بجٹ
وقت سے پہلے مقامی پیداوار کم ہونے کی وجہ سے ٹماٹر کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں جس سے عام آدمی کے ماہانہ بجٹ پر بھی اثر پڑا ہے۔
مردان سے تعلق رکھنے والی گھریلو خاتون شبانہ بی بی کہتی ہیں کہ ہر سال ان دنوں میں ٹماٹر کی قیمت زیادہ سے زیادہ 50 روپے فی کلو ہوتی تھی لیکن اس سال یہ 150 روپے سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔ شبانہ کہتی ہیں کہ بجلی بلز، فیسوں اور گھریلو استعمال کی دیگر اشیاء کی قیمتوں میں آئے دن اضافے سے پہلے سے ہی تنگ تھے لیکن اب ٹماٹر اور سبزیاں مہنگی ہونے سے ان کی مشکلات مزید بڑھ جائیں گی۔
وہ کہتی ہیں کہ سالن میں ٹماٹر نہ ہو تو نہ بڑے کھاتے ہیں اور نہ بچے۔ وہ کہتی ہیں کہ کم قیمت ٹماٹر لیں تو اچھی کوالٹی کے نہیں ہوتے، سائز میں چھوٹے ہوتے ہیں اور زیادہ رسیلے بھی نہیں ہوتے جس کی وجہ سے اس کا استعمال بھی زیادہ ہوتا ہے۔
ترناب فارم کی ریسرچ آفیسر حنا فیاض کا کہنا ہے کہ فصل کو جب موزوں موسم اور درجہ حرارت نہ ملے تو پودے زمین سے صحیح خوراک حاصل نہیں کر پاتے جس کی وجہ سے پیداوار پر اثر پڑتا ہے۔ رواں برس ٹماٹر کے ساتھ بھی ایسا ہوا ہے۔ جو پودے وقت سے پہلے سوکھ گئے ہیں ان کے دانے میں رس نہیں ہے۔
بھارت میں ٹماٹر کی قلت، افغان تاجروں کی اس مارکیٹ پر نظر
پاکستان کے مختلف علاقوں میں سال کے 12 مہینے ٹماٹر کی پیداوار ہوتی ہے اور ضرورت پڑنے پر اس کو درآمد اور برآمد بھی کیا جاتا ہے۔ زیادہ تر برآمدات افغانستان اور خلیج ممالک کو کی جاتی ہیں۔ جبکہ زیادہ تر درآمدات افغانستان اور ایران سے جولائی کے بعد مقامی پیداوار کم ہونے پر شروع ہو جاتی ہیں۔
تورخم بارڈر پر کسٹم کلیئرنس ایجنٹ عبدالرحمان کہتے ہیں کہ رواں سال وقت سے پہلے ہی افغانستان سے ٹماٹر کی درآمدات شروع ہو چکی ہیں تاہم وہاں پر سیزن پوری طرح شروع نہ ہونے کی وجہ سے یہ درآمدات فی الحال انتہائی کم ہیں جو کہ 30 ٹرالرز روزانہ تک محدود ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ آنے والے چند ہفتوں میں لوگر صوبہ اور کابل میں ٹماٹر کی فصل پکنے کے بعد پاکستان کو اس تجارت کی حجم بڑھ جائی گی اور روزانہ کی بنیاد پر 150 تک ٹرالرز درآمد کیے جائیں گے جس سے پاکستان میں قیمتیں ایک بار پھر گرنے کی توقع ہے۔ افغانستان کا سیزن ختم ہونے پر پھر ایران سے افغانستان کے راستے ٹماٹر کی تجارت شروع ہو جاتی ہے۔
عبدالرحمان نے امید کے ساتھ خدشہ بھی ظاہر کیا کہ اگر افغانستان کے ایکسپورٹرز کو یہاں اچھی قیمتیں نہ ملیں اور انڈیا میں بھی قلت ایسی رہی تو ممکن ہے وہ اپنے لئے وہاں مارکیٹ ڈھونڈ لیں گے۔ ابھی پچھلے چند دنوں میں بھی 5،6 ٹماٹر سے لدے ٹرالرز پاکستان کے راستے بھارت ٹرانزٹ کیے گئے ہیں۔ اس کا مطلب ہے ان لوگوں کی پہلے سے ہی وہاں پر نظر ہے۔ اور اگر ایسا ہوا تو پاکستان میں ٹماٹر کی قیمتیں مزید بڑھنے کا خدشہ ہو سکتا ہے۔