صوابی نہر میں پشاور کے دو نوجوانوں کی موت، یہ دونوں کیسے ڈوب گئے؟
محمد سلمان
پشاور کے علاقے کاکشال کے رہائشی خان گل کو ایک ‘بدقسمت’ کال موصول ہوتی ہے جس میں ان کا بڑا بیٹا اللہ رکھا اپنے والد کو یہ بتانے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا کہ ان کا بھائی اور خان گل کا بیٹا محمد حیات صوابی کے باقر کلے میں واقع نہر میں ڈوب گیا ہے۔
یہ 16 جولائی کا دن تھا۔ ایسے میں وہاں موجود ایک مقامی شخص اللہ رکھا سے موبائل فون کھینچ لیتا ہے اور ان کے والد خان گل کو اطلاع دیتا ہے کہ ان کا بیٹا اب اس دنیا میں نہیں رہا کیونکہ چند لمحے پہلے وہ نہر میں ڈوب کر مر گیا تھا۔ یہ سن کر خان گل کو یقین نہیں آتا کیونکہ محمد حیات گھر سے حیات آباد باغ ناران کے لیے نکلے تھے یہ صوابی کیسے پہنچ گئے؟
اس اطلاع کے بعد محمد حیات کے والد اور رشتہ دار شام کو صوابی کے لیے نکل پڑے اور پوری رات حیات محمد کی لاش کو تلاش کیا لیکن وہ نہیں ملے اور اگلے صبح پیر کو نماز فجر کے بعد ریسکیو 1122 نے ان کی لاش کو ڈھونڈ نکالا۔
خیال رہے کہ گزشتہ اتوار 16 جولائی کو صوابی میں پشاور کے رہائشی 26 سالہ محمد حیات اور 31 سالہ عبدالحفیظ سکنہ بھانہ ماڑی پشاور نہر ڈوب گئے تھے۔
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے محمد حیات کے والد خان گل نے بتایا کہ محمد حیات اور عبدالحفیظ ایک عرصہ سے گہرے دوست تھے۔ اس روز بھی عبدالحفیظ ان کے گھر آیا تھا جہاں ایک ساتھ دونوں نے کھانا کھایا اور مجھ سے کہنے لگا کہ ہم حیات آباد باغ ناران جانا چاہتے ہیں، میں نے جانے سے منع کر دیا تاہم اس کے باوجود وہ دونوں موٹر سائیکل پر نکل پڑے۔
وہ کہتے ہیں ان کے ساتھ میرا بڑا بیٹا اللہ رکھا بھی روانہ ہوا اور رنگ روڈ پہنچتے ہی انہوں نے اپنا ارادہ تبدیل کرکے صوابی کے لیے نکل پڑے۔
صوابی سے جب رات ساڑھے 11 بجے گھر ناکام لوٹے تو اس انتظار میں بیٹھے رہیں کہ ان دونوں کی ڈیڈ باڈیز کب ملیں گی، ان کی ڈیڈ باڈیز ڈھونڈنے میں صوابی ریسکیو اور وہاں کے عوام نے جو کردار ادا کیا وہ ہم کبھی نہیں بھولیں گے۔
یہ دونوں کیسے ڈوب گئے؟
محمد حیات کے بھائی اللہ رکھا نے بتایا جب ہم صوابی پہنچ گئے تو یہ دونوں نہر کے کنارے بیٹھے ہوئے تھے، ان کو تیرنا نہیں آتا تھا اور ان کی ہی ان کا نہر میں نہانا کا کوئی پلان تھا۔ اس دوران میں نے ان دونوں کی تصویر لی اور اس کے دو تین منٹ بعد عبدالحفیظ نہر میں پھسل گیا اس نے خود کو بچانے کے لیے محمد حیات کو شلوار کی ایک سمت سے پکڑا جس سے وہ بھی نہر میں گر گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے دونوں پانی میں ڈوب گئے۔
اللہ رکھا کے بقول وہاں صرف ہم تین لوگ ہی تھے، ارد گرد کوئی نہیں تھا۔ گاؤں بھی فاصلے پر تھا جب یہ واقعہ ہوا تو میں نے زور زور سے چہیخیں لگائی جس کے بعد وہاں کے مقامی لوگ میری مدد کے لیے آئے، اس وقت میں نے بھی ان کو بچانے کے لیے نہر میں چھلانگ لگانے کی کوشش کی تو وہاں کے مقامی لوگوں نے مجھے روکا اور کہا کہ یہاں جب بندہ ایک بار گر جاتا ہے تو چار پانچ منٹ میں اس کی موت واقع ہو جاتی ہے۔
‘ہم ابھی تک انتہائی صدمے سے دوچار ہیں’
ادھر عبدالحفیظ کے والد عبدالجبار کا کہنا تھا کہ میرے پانچ بیٹے تھے، ایک بیٹے کا انتقال تقریبا 16 سال قبل ہو گیا ہے جبکہ چار روز قبل ایک اور بیٹے کی موت واقع ہو گئی۔ عبدالحفیظ کی شادی 14 ماہ قبل ہوئی تھی، اس پورے واقعے سے ہم بالکل لاعلم تھے۔ محمد حیات کا بڑا بھائی اللہ رکھا نے میرے بیٹے عبدالستار کو فون کر کے یہ واقعہ سنایا۔
انہوں نے بتایا کہ ہم ابھی تک انتہائی صدمے سے دوچار ہیں اور عبدالحفیظ کے جانے کا یقین ہی نہیں آ رہا ہے۔ بہرحال یہ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ان دونوں کی لاشیں بہت جلد مل گئی کیونکہ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ لوگوں کی لاشیں مہینوں تک بھی نہیں مل پاتی، ہمارے سامنے ہمسایہ کا گھر ہے ان کا ایک رشتہ دار بھی منڈا نہر میں گر گیا ہے ساتواں دن ہونے کو ہے کہ وہ ابھی تک نہیں ملا۔