"ڈی آر سی کو روایتی جرگوں کی طرح بدنام نہ کیا جائے”
محمد بلال یاسر
2018 میں انضمام کے بعد 116 برس سے نافذ ایف سی آر کے نظام کو ختم کرکے اس کی جگہ پاکستان کے عدالتی نظام کو نافذ کیا گیا۔ اس نظام کے تحت اعلیٰ عدالتوں کے دائرہ کار کو قبائلی اضلاع تک توسیع دے دی گئی ہے اور اسی طرح پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ضم شدہ قبائلی اضلاع میں تعینات ججوں نے 11 مارچ 2019 سے باقاعدہ کام شروع کردیا۔
اے ڈی آر :
مقامی عدالت کے ساتھ ساتھ قبائلی رسم و رواج کی خاطر مئی 2021 میں قبائلی اضلاع کے عوام کے مقامی مسائل کو حل کرنے کیلئے قبائلی ضلع باجوڑ میں اے ڈی آر (آلٹرنیٹ ڈسپیوٹ ریزولوشن ایکٹ) نظام کو بھی عملی شکل دے دی گئی اور اس کمیٹی کیلئے مقامی قبائلی عمائدین پر مشتمل جرگے سے باقاعدہ حلف برادری بھی لی گئی تاکہ عدالت میں جانے سے قبل اگر کوئی بندہ چاہیں تو اس اے ڈی آر کمیٹی سے بھی اپنا فیصلہ کرکے مسئلہ حل کروا سکتا ہے۔
ڈی آر سی :
ضلعی عدالت اور اے ڈی آر کے ساتھ ساتھ اب خیبر پختونخوا حکومت نے پولیس اسٹیشنوں اور عدالتوں پر مقدموں کا بوجھ کم کرنے کے لیے ضلعی سطح پر شہریوں کے آپسی تنازعات کے حل کے لیے باجوڑ میں پہلی بار ڈسپیوٹ ریزولوشن کونسل (DRC) کا قیام بھی عمل میں لایا ہے۔
ڈی آر سی کمیٹی کی ذمہ داریاں :
اس کمیٹی میں وہ ممبران شامل ہیں جو اے ڈی آر کمیٹی میں تھے۔ اس کمیٹی کی قیادت ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر باجوڑ نذیر خان کررہے ہیں۔ انہیں کی زیر نگرانی یہ کمیٹی کام کرے گی۔ کمیٹی ممبران سے حلف برداری کے موقع پر ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر باجوڑ نذیر خان نے کہا کہ ضلع بھر میں موجود مختلف اقسام کے مسائل، دشمنیاں وغیرہ اب علاقائی رسم ورواج کے ذریعے پر امن طریقے سے حل کرنے کیلئے کوششیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ دیرپا امن کے قیام کیلئے ڈسپیوٹ ریزولوشن کونسل (DRC) کا قیام ایک نیک شگون اقدام ہے۔ کونسل میں شامل ممبران ہر لحاظ سے پاک دامن اور علاقائی امن کیلئے سنجیدہ ہیں۔ انہوں نے کونسل ممبران پر زور دیا کہ وہ فریقین کے درمیان مختلف اقسام کے تنازعات کو علاقائی رسم و رواج اور قانون کے مطابق پوری دیانتداری، نیک نیتی اور شفاف طریقے سے حل کرائیں۔
سیاسی قائدین کیا کہتے ہیں؟
سید صدیق اکبر جان ، عوامی نیشنل پارٹی باجوڑ کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری ہیں۔ انہوں نے سال 2022 میں قبائلی اضلاع میں ہونے والے پہلے بلدیاتی انتخابات میں عوامی نیشن پارٹی کی ٹکٹ پر سب ڈویژن چیئرمین شپ کیلئے الیکشن لڑا اور 18000 سے زائد ووٹ لیے۔ صدیق اکبر کہتے ہیں کہ اے ڈی آر کا نظام سیاسی پارٹیوں کو کسی صورت قبول نہیں اور وہ قبائلی علاقوں میں ناکام ہوچکا ہے کیونکہ اس میں وہی لوگ چنے گئے جو کہ ایف سی آر کے حمایتی اور سول لاء کے خلاف تھے۔ اب ڈی آر سی لانچ کردی گئی یہ نظام پولیس سسٹم کا حصہ ہے مگر بدقسمتی سے کہنا پڑ رہا ہے کہ اس کمیٹی میں بھی وہی پرانے لوگ ڈال دیئے گئے ہیں اگر حکومت ایسی کوئی کمیٹی تشکیل دینا چاہتی ہے تو اس میں آزاد جرگہ ممبران یا لوکل گورنمنٹ کے منتخب نمائندے ڈال دیں تاکہ مسائل حل ہوں۔
قاری عبد المجید ، جماعت اسلامی باجوڑ کے نائب امیر ہیں۔ وہ گزشتہ دو تین دہائیوں سے باجوڑ کی سیاست کا لازمی جزء ہے۔ جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر انہوں نے 2018 میں باجوڑ سے قومی اسمبلی کا الیکشن بھی لڑا ، وہ کہتے ہیں کہ ضلعی عدالت کے موجودگی میں اے ڈی آر اور ڈی آر سی کیا معنی رکھتی ہے مگر پھر بھی اگر عوام چاہیں تو یہ سسٹم بھی ان کیلئے موجود ہیں مگر ضروری ہے کہ اسے روایتی جرگوں کی طرح بدنام نہ کیا جائے عوام کے ساتھ اس میں ظلم اور اقرباء پروری سے بچا جائے۔
قانونی ماہرین کی رائے :
اس حوالے سے باجوڑ بار ایسوسی ایشن کے صدر جاوید شاہ ایڈوکیٹ کہتے ہیں قانون میں اے ڈی آر اور ڈی آر سی دونوں کی سہولت موجود ہیں۔ ڈی آر سی پولیس سسٹم کا حصہ جبکہ اے ڈی آر سول لاء کیلئے معاون سسٹم ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ سب صرف ثالثی ایکٹ کا حصہ ہیں معاشرے کے لوگوں کے درمیان مسائل کے حل کیلئے ، وہ جس طریقے سے چاہیں حل کریں اور کوئی بھی ادارہ انہیں مجبور نہیں کرسکتا۔ وہ کہتے ہیں کہ مقامی عدالت عوام کے آسانی کیلئے کوششیں کررہی ہیں تاکہ ان کے مسائل باآسانی حل ہوں اور انہیں دوسرے پلیٹ فارم کے بجائے یہاں آسان اور سستا انصاف فراہم ہو۔ ڈی آر سی میں کسی بھی سائل پر کوئی زور زبردستی نہیں کرسکتا۔