آج کا انسان بے سکونی کا شکار کیوں؟
حمیرا علیم
آج کے دور میں انسانوں کے پاس پیسہ ، شہرت، گھر، گاڑیاں اور آسائش زندگی سب کچھ ہے مگر نہیں ہے تو سکون نہیں ہے۔ لوگ پیسے کے پیچھے دوڑتے دوڑتے یہ بھول جاتے ہیں کہ بحیثیت انسان انکے کچھ فرائض ہیں جو انہیں اپنے خالق کیلئے ادا کرنے ہیں۔ بس یہیں سے بگاڑ شروع ہو جاتا ہے۔ وہ ہر چیز حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں سوائے سکون کے اور پھر کبھی سائیکاٹرسٹس کے پاس چکر لگاتے ہیں تو کبھی مزاروں اور آستانوں پہ جبکہ وہ یہ بھول جاتے ہیں جسم مٹی سے بنا ہے اور اسکی خوراک بھی مٹی سے اگتی ہے اور روح آسمان سے آتی ہے لہذا اسکی خوراک بھی آسمانی ہے۔
لوگ موسیقی کو روح کی غذا کہتے ہیں جبکہ اللہ تعالٰی نے سکون پانے کا نسخہ تو ہمیں ١٤٠٠سال پہلے ہی بتا دیا تھا۔مگر ہم اسے بھلا بیٹھے ہیں۔ قرآن پاک میں اللہ تعالٰی کا فرمان ہے۔” دلوں کا اطمینان ذکر الہی میں ہے۔” ہم دنیا جہان کی باتیں کر لیتے ہیں مگر نہیں کرتے تو ذکر الہی نہیں کرتے۔ ذکر اسی چیز کا کیا جاتا ہے جو دل کو لگے اور ہم اس سے اتنے متاثر ہوں کہ اس کے بارے میں بات کئے بنا رہ ہی نہ سکیں ۔ جیسے کبھی سڑک پرکوئی حادثہ دیکھ کر ہر ملنے والے شخص سے اسکے بارے میں بات کرتے ہیں۔ بالکل ایسے ہی ہمیں اللہ تعالٰی کی باتیں کرنی چاہیے۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کسی کے بارے میں بات کرنے کیلئے اس کے بارے میں جاننا ضروری ہے اور ہم اللہ تعالٰی کے بارے میں بس وہی رٹی رٹائی باتیں کرتے ہیں جو بچپن سے سنتے آ رہے ہیں۔”اللہ نے ہمیں پیدا کیا ہے وہ سب سے بڑا ہے۔غلط کام کرنے پہ وہ ناراض ہو کر جہنم میں ڈال دے گا وغیرہ وغیرہ ۔” حالانکہ اس کا اصل تعارف ، اسکی صفات اور انسانوں سے پیار کے قصے تو قرآن اور حدیث میں ہیں جن سے ہم قطعا لا تعلق اور لاعلم ہیں۔ اللہ تعالٰی نے قرآن کے شروع میں ہی اپنا تعارف رحمن و رحیم رب کے طور پر کروایا ہے اور ہم اسے بھلا کر اسے جبار وقہار ثابت کرنے پر تلے رہتے ہیں۔ وہ کہتا ہے” سوتے، جاگتے،اٹھتے بیٹھتے، پہلو کے بل ہر جگہ میرا ذکر کرو۔” ہم کہتے ہیں اور بہت سے اہم ایشوز ہیں بات کرنے کو بڑھاپے میں اللہ اللہ بھی کر لیں گے۔
نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ” ہر رات کے آخری حصے میں اللہ تعالٰی آسمان سے دنیا پر تشریف لاتا ہے اور فرماتا ہے” ہے کوئی پکارنے والا جس کی پکار میں سنوں۔” تہجد کے وقت کی دعا قبول ہوتی ہے۔” اور ہم ساری رات جاگ کر پارٹیز، شادیاں اٹینڈ کر لیتے ہیں مویز دیکھ لیتے ہیں گپ شپ کر لیتے ہیں مگر تہجد تو دور کی بات ہے فجر کیلئے بھی نہیں اٹھ پاتے۔
نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ایک حدیث ہے۔” فرشتوں کی ایک جماعت ہر جگہ پھرتی رہتی ہے اور جہاں کہیں قرآن و حدیث یا ذکر الہی ہورہا ہو وہاں رک کر ایک دوسرے کے اوپر تلے کھڑے ہوکر حاضرین محفل کا ذکر انکا نام لیکر کرتے ہیں کہ فلاں جگہ فلاں فلاں شخص قرآن حدیث پڑھ رہا تھا ذکر کر رہا تھا۔ یوں فرشتے آسمان تک ان سب کے نام لیتے ہیں پھر بارگاہ الٰہی میں حاضر ہو کر بتاتے ہیں تو اللہ تعالٰی فرماتے ہیں ۔” اچھا !میرا فلاں فلاں بندہ میرا ذکر کر رہا تھا۔۔جاو اس محفل میں موجود سب لوگوں کو بخش دو۔” فرشتے کہتے ہیں "لیکن ایک شخص تو بس ویسے ہی وہاں بیٹھ گیا تھاوہ خصوصا اس محفل میں شرکت کیلئے تو وہاں نہیں آیا تھا۔” اللہ تعالٰی فرماتا ہے” اسے بھی بخش دو کہ وہ میرے ذکر کی محفل میں موجود ہے۔”
ذرا تصور کیجئے ایک ایسا شخص جو بلا ارادہ کسی محفل درس میں شریک ہو اسکا بھی نام لیکر اللہ تعالٰی اسکی مغفرت فرما دیتے ہیں ۔تو ان لوگوں کے اجر کا کیا حال ہوگا جواس محفل کا اہتمام کرتے ہیں اور دن رات ذکر میں مشغول رہتے ہیں ۔بہترین طریقہ ذکر وہ ہے جو سنت سے ثابت شدہ ہے اور وہ ہے ہر کام سے پہلے اور بعد کی دعائیں ۔جیسے کھانا کھانے سے پہلے بعد کی دعا، پانی پینے، سونے جاگنے، واش روم جانے نکلنے،گھر سے باہر جانے داخل ہونے، آئینہ دیکھنے، کپڑے بدلنے، گاڑی میں سوار ہونے اترنے، سیڑھیاں چڑھنے اترنے وغیرہ کی دعائیں اور صبح شام کے مسنون اذکار اور نماز۔
کچھ ایسے اذکار ہیں جنہیں روزانہ چلتے پھرتے معمول بنا لیا جائے تو بیحد فائدہ مند ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ۔”چند کلمات زبان پر ہلکے مگر وزن میں بھاری ہیں ۔” یعنی آسانی سے ادا ہو جاتے ہیں اور ثواب زیادہ ملتا ہے۔مثلا: سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم۔ ایک با پڑھنے سے جنت میں ایک درخت پڑھنے والے کے نام کا لگتا ہے لا حول ولا قوہ الا باللہ پڑھنے والے کیلئے خوشخبری ہے۔ لا الہ اللہ۔میزان پہ بھاری ہے۔ ایک بار نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر صلوہ پڑھنے والے کو دس نیکیاں ملتی ہیں ۔قرآن پاک کیمطابق استغفار پڑھنے سے رزق میں کشادگی، عمر میں اضافہ،بارش، گناہوں کی بخشش، اولاد، مال ملتی ہے۔ جوشخص صبح و شام یا روزانہ ان سب کو پڑھتا ہو اس کا آخرت کا بینک بیلنس تو لا محدود ہو گا۔
اگر ہم سب نہیں بھی پڑھ سکتے تو کسی ایک پر دوامت اختیار کرنا بھی باعث ثواب ہو گا۔اللہ تعالٰی سے دعا بھی اس کا ذکر اور عبادت ہے ۔یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر کتابیں لکھی جا سکتی ہیں مگر میں مختصر تحریر لکھ رہی ہوں انشاءاللہ اس موضوع پر سیرت النبی کے بعد سلسلہ شروع کرونگی۔