آٹو گراف پلیز
نازیہ
دو دن پہلے کی بات ہے کہ میری ایک دوست نے سکول کے زمانے میں لیے گئے کچھ آٹوگراف اپنے واٹس ایپ سٹیٹس پر لگائے تو پھر اسی پر ہم نے سکول کے زمانے اور آٹوگراف کو محور موضوع بنایا اور اس کے کھو جانے پر بھی بات کی۔
آٹوگراف پلیز یہ وہ آواز تھی جو چند دہائی قبل ہر اس تقریب میں سنائی دیتی تھی جہاں مشہور ہستیاں شریک ہوتی تھی اور مداح اس موقع سے فائدہ اٹھا کر ان سے آٹو گراف لینے کی ہرممکن کوشش کرتے تھے۔ نہ صرف مشہور لوگوں سے آٹو گراف لیا جاتا تھا بلکہ تعلیمی اداروں میں بھی اس کا رواج کافی عام تھا۔ لیکن وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ یہ سلسلہ ماند پڑ گیا ہے۔ آٹو گراف کہیں نا کہیں اب بھی زندہ ہے مگر اس کے لیے ہم میں اب وہ جوش انداز اور وہ اشتیاق نہیں ہے جو کبھی ماضی میں ہوا کرتا تھا۔
جب سوشل میڈیا اور موبائل فون, کیبل اور ٹیلیفون ہر گھر میں نہیں ہوتا تھا تو اس وقت کے لوگ آٹو گراف سے ضرور اشناس ہونگے۔ میں اگر اپنی بات کروں تو میرا آٹوگراف سے تعلق اپنے اسکول کے بالکل آخری سال میں جڑا جب ہم دسویں جماعت کی طالبات کو نویں جماعت کی طالبات نے الوداعی پارٹی دی۔ آج سے چند سال قبل جب دسویں جماعت ہوتی سکول سے جانے والی ہوتی تو نویں جماعت والے انکو پارٹی دیتے اور اسی طرح جو اچھا وقت انہوں نے اپنے سکول میں گزارا ہوتا تو پھر ان لمحات کو یادگار بنانے اور اپنے دل سے لگائے رکھنے کے لیے آٹوگراف ڈائری کا سہارا لیا جاتا۔ اس وقت موبائل تو اتنے عام تھے ہی نہیں تو بس لڑکیاں آٹوگراف ڈائری کو بہت اہمیت دیتی تھی۔
اس وقت اپنے اساتذہ سے اپنی ڈائری پر ان کے آٹوگراف، دستخط، نصیحتیں اور پیار بھرے پیغامات کا ایک مجموعہ ہاتھ لگ جاتا تھا جن کو لوگ کھول کھول کر گزرے وقت کو یاد کرتے۔
اب یہاں ایک اہم سوال یہ بنتا ہے کہ اخر یہ اٹوگراف کھو کیوں گیا ہے؟
چلے اب اس ماضی سے نکل کر حال میں آتے ہیں تو جناب نئی نسل نے تو خود کو آٹو گراف لینے کی خواہش سے آزاد ہی کر رکھا ہے۔ کیونکہ اب تو سیلفی کا زمانہ ہے جس نے بڑے ہی ارام سے آٹو گراف کی جگہ لے لی ہے۔
جس طرح پہلے آٹوگراف لینا بہت بڑی کامیابی تصور کی جاتی تھی اسی طرح آج کل سیلفی لینا بھی کسی کارنامے سے کم نہیں تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن اگر میں اپنے دل کی بات بتاؤں تو جو بات سادہ سے آٹوگراف اور اس کے ساتھ لکھے پیغام میں ہوتی تھی بھلا وہ آج کی سیلفی میں کہاں ہے۔
مشہور شخصیات سے اٹوگراف لینے کے لیے لوگوں کے ہجوم میں مداحوں کے لبوں سے آٹو گراف پلیز کی آواز کانوں میں گونج رہی ہوتی تھی۔ اور اٹوگراف لینے کے لیے قلم ہر کسی کے ہاتھ میں تیار ہوتا تھا۔ مزے کی بات تو یہ تھی کہ جن کے پاس ڈائری نہ ہوتی تو وہ اپنے قمیص، کرنسی نوٹ یا ہتھیلی پر آٹوگراف لینے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ بلکہ بعض تو ایسے مداح ہوتے تھے جو اپنی پسندیدہ شخصیات کے آٹو گراف کو فریم میں محفوظ کرلیا کرتے تھے۔ وہ بھی ایک دور تھا اور اب سیلفی لینے کا بھی ایک دور ہے۔
سوشل میڈیا اور مصروف ترین دور میں آج آٹوگراف کی روایت بس صرف اتنی ہی حیات رہ گئی ہے کہ چیریٹی کے حوالے سے تقریب میں یا کوئی اور سرکاری تقریب ہو جس میں کھلاڑی، فنکار یا کسی بھی نامور شخصیات کے دستخط سے لیس کوئی بھی چیز مہنگی فروخت کرکے اس کو کسی فلاحی کاموں یا اپنی ذات پر خرچ کیا جاتا ہے جو کہ ایک اچھا عمل ہے اور اس کو اسی طرح جاری رکھنا چاہیے تاکہ کسی نہ کسی کا تو بھلا ہو مگر جو پرانا آٹو گراف ہے وہ کہیں کھوگیا ہے جس کی ہمیں تلاش ہے۔
کیا اپ میری اس بات سے متفق ہے کہ ہاں واقعی اٹوگراف کہیں کھو گیا ہے؟
نازیہ بلاگر ہے جو مختلف سماجی مسائل پر بلاگز لکھتی ہے۔