لائف سٹائل

بینکوں میں ود ہولڈنگ ٹیکس کی کٹوتی شروع، نان فائلرز نے سر پکڑ لیے

محمد سلمان

بینکوں سے رقم نکلوانے پر ایک بار پھر ود ہولڈنگ ٹیکس کا اطلاق ہو گیا ہے جس کے تحت صرف نان فائلرز سے ٹیکس لیا جائے گا اور فائلرز اس ٹیکس سے مستثنیٰ ہوں گے۔

ٹیکس نفاذ کے بعد کھاتہ دار جب اپنے اکاؤنٹ سے 50 ہزار سے زائد کی رقم نکلوائیں گے تو ان سے صفر اعشاریہ چھ فیصد یعنی 600 روپے ٹیکس لیا جائے گا۔

یاد رہے کہ ود ہولڈنگ ٹیکس کا یہ سلسلہ سابق وزیراعظم شوکت عزیز کے دور سے چلا آ رہا تھا جس سے تاجر برادری اور کاروباری طبقہ نہ صرف انتہائی پریشان تھے بلکہ وہ بینکوں میں رقوم رکھنے کی بجائے اپنے پاس رکھنے کو ترجیح دیتے تھے۔

تاجر برادری نے ہر دور حکومت میں اس ٹیکس کے خلاف آواز اٹھائی ہے جبکہ ایک بار انہوں نے ملک گیر ہڑتال کرتے ہوئے 3 روز تک اپنے کاروبار بند رکھے تھے۔

سابق وزیراعظم عمران خان کے دور حکومت کے وسط میں اس ٹیکس کا خاتمہ کیا گیا تاہم 2023-24 کے وفاقی بجٹ میں نان فائلرز پر دوبارہ سے ود ہولڈنگ ٹیکس نافذ کر دیا گیا جس کا اطلاق یکم جولائی 2023 سے ہو چکا ہے۔

سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے قائم مقام صدر اعجاز افریدی نے ٹی این این کو بتایا کہ ود ہولڈنگ ٹیکس کے نفاذ کو پھر سے دہرایا گیا ہے، پہلے بھی اس عمل سے بینکوں کا بے تحاشہ نقصان ہوا اور اب بھی اس کے نقصانات سامنے آئیں گے کیونکہ لوگوں کی اکثریت ٹیکس سے بچنے کے لیے بینکوں میں پیسہ رکھنے کے بجائے اپنے پاس رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

ان کے بقول اس کا براہ راست اثر چھوٹے دکانداروں پر پڑتا ہے کیونکہ وہ نان فائلرز ہوتے ہیں اور یہاں فائلرز نہ بننے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ایک طرف فائلر بننے کے بدلے ان کو کچھ نہیں ملنے والا تو دوسری طرف ایف بی آر ان کو تنگ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت اور آئی ایم ایف کے مابین جو 3 ارب ڈالر کا معاہدہ ہوا ہے اس ود ہولڈنگ ٹیکس کا نفاذ بھی اس معاہدے کی ایک کڑی ہے کیونکہ آئی ایم ایف کا زیادہ تر اصرار ٹیکسز پر ہی ہوتا ہے لہذا جتنا جلدی ہو سکے حکومت ود ہولڈنگ ٹیکس ختم کردے۔

تنظیم تاجران پشاور کے جنرل سیکرٹری شکیل صراف نے حکومت کو تجویز دی کہ 50 ہزار کی بجائے اس کی حد 5 لاکھ روزانہ کی بنیاد پر مقرر کی جائے تو کاروباری طبقہ کو اتنی مشکلات درپیش نہیں ہوں گی ورنہ وہی ہوگا کہ لوگ بینکوں میں پیسہ جمع نہیں کروائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ پہلے ہی ملک کی معاشی صورتحال سب کے سامنے ہے اور اگر لوگ بینکوں میں اپنا پیسہ نہیں رکھیں گے تو اس سے صورتحال مزید بگڑ جائے گی، یہاں زیادہ تر چھوٹے دکاندار ہیں اور ان کا ٹوٹل سرمایہ 20 سے 25 لاکھ کے درمیان ہوتا ہے اگر وہ اپنی تحفظ کے لیے شام کے وقت بینکوں میں اپنی رقم رکھیں گے اور صبح کے وقت نکالیں گے تو  سالانہ حساب سے ان سے لاکھوں کا ٹیکس لیا جائے گا۔

دوسری جانب نجی بینک کے ایک مینیجر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ظاہری بات ہے کہ جب نان فائلر سے 50 ہزار روپے سے زائد کے عوض 600 روپے ٹیکس کٹے گا تو وہ پھر بینک کا متبادل تلاش کرے گا اس عمل سے ہم پہلے بھی گزرے ہیں یہ بینکوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بینک سے ٹیکس کٹوتی کی ابھی ابھی شروعات ہیں جوں جوں لوگوں کو ٹیکس کٹوتی کا علم ہوتا ہے وہ تو یا اپنے اکاؤنٹس ختم کر دیتے ہیں یا پھر کوئی اور ذریعہ ڈھونڈتے ہیں۔

Show More

Salman

سلمان یوسفزئی ایک ملٹی میڈیا جرنلسٹ ہے اور گزشتہ سات سالوں سے پشاور میں قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں کے ساتھ مختلف موضوعات پر کام کررہے ہیں۔

متعلقہ پوسٹس

Back to top button