بلاگزتعلیم

"اگر ایک لڑکی ہو کہ تم بیرون ملک پڑھنے کے لیے جاؤ گی تو لوگ کیا کہیں گے؟”

 

تحریر: رعناز

گزشتہ دنوں میں فون پر اپنی سہیلی سے بات کر رہی تھی۔ وہ مجھے کافی اداس نظر آئی۔ میں وجہ پوچھے بغیر نہ رہ سکی کیونکہ وہ ایک زندہ دل لڑکی ہے۔ ہر وقت خوش اور ہشاش بشاش نظر آتی ہے۔  وجہ پوچھنے پر اس نے مجھے پوری کہانی سنائی۔ بتا رہی تھی کہ پچھلے چھ ماہ سے میں جرمنی کے ایک سکالرشپ کے لیے اپلائی کر رہی تھی۔ میں تعلیم کے لیے بیرون ملک جانا چاہتی ہوں۔ چھ ماہ کی کوششوں کے بعد آخر کار میرا داخلہ ہو گیا۔ میں نے آگے سے کہا کہ پگلی یہ تو خوش ہونے کی بات ہے تم اداس کیوں ہو رہی ہو؟ میری سہیلی نے کہا کہ اب میرے والدین مجھے بیرون ملک جانے کی اجازت نہیں دے رہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ایک لڑکی ہو کہ تم بیرون ملک پڑھنے کے لیے یا نوکری کرنے جاؤ گی تو لوگ کیا کہیں گے؟ معاشرے کے لوگ ہم پر انگلی اٹھائیں گے کہ بیٹی کو ملک سے باہر بھجوا دیا ہے ۔لوگ ہم سے طرح طرح کے سوالات کریں گے۔ مزید یہ کہ لوگ تمہارے کردار پر بھی انگلی اٹھائیں گے۔ تو یہ تھے میری سہیلی کے والدین کے دیے ہوئے وجوہات جس کی بنا پر اس کو بیرون ملک پڑھائی کی اجازت نہیں دی گئی۔

بیرونی ملک میں پڑھنا میری سہیلی کی ایک دیرینہ خواہش تھی۔ یہ اس کا ایک خواب تھا جسے وہ پورا کرنا چاہ رہی تھی مگر افسوس یہ خواب صرف خواب ہی رہ گیا ۔تو یہاں پر میں یہ سوال کرنا چاہوں گی کہ کیا ہم لڑکیاں صرف اس لیے اپنی خواہشات کا قتل کریں گی کہ لوگ کیا کہیں گے؟ اگر لڑکا بیرون ملک جانا چاہے تو اس کے بارے میں لوگ کچھ بھی نہیں کہیں گے؟ کیا بیرون ملک جانا صرف لڑکے کا حق ہے لڑکی کا نہیں ؟کیا ہمیشہ ہم لڑکیوں کو اپنی خواہشات کا گلا گھونٹنا پڑے گا؟ آخر یہ معاشرے کی زنجیروں کو توڑنے میں ہم کب کامیاب ہوں گے؟

یہ معاملہ صرف بیرون ملک جانے کا نہیں بلکہ اپنے شہر سے کسی دوسرے شہر میں جانے کا بھی ہے۔ اگر ہم لڑکیوں کو کسی دوسرے شہر پڑھنے کے لیے جانا ہو یا نوکری کرنی ہو تو ہمیں ہمیشہ انکار ہی سننا پڑتا ہے۔ ہمیں یہ کہہ کے ٹھال دیا جاتا ہے کہ باہر کے حالات خراب ہے اس لیے ہمیں جو بھی کرنا ہے تو اپنے شہر یا اپنے ملک کے اندر رہ کر ہی کرنا ہے۔

اگر ہم کامیابی کی طرف جانا چاہے تو لوگوں کی باتوں کی وجہ سے ہم جا نہیں پاتے۔ اگر ہم اڑنا چاہے تو ہمارے پروں کو پرواز سے پہلے ہی کاٹ دیا جاتا ہے۔

ہمارے معاشرے کو اپنی سوچ بدلنی ہوگی اگر ایک لڑکا باہر جا سکتا ہے، پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بن سکتا ہے تو اسی طرح ایک لڑکی بھی کر سکتی ہے۔ ایک لڑکی میں بھی یہ صلاحیت ہے کہ وہ اپنے آپ کو کامیاب کر سکے۔

آئیے اب چلتے ہیں ان وجوہات کی طرف جس کی وھہ سے والدین اپنی بیٹیوں کو باہر بھجوانے کے حق میں نہیں ہوتے۔ اگر والدین کہیں کہ باہر کے حالات خراب ہے تو میں ان کے دیے گئے اس وجہ کو کسی حد تک ٹھیک بھی مانتی ہوں کیونکہ آئے روز ہمیں نیوز میں سننے کو ملتا ہے کہ فلاں جگہ لڑکی کا ریپ ہوا ہے۔ فلاں جگہ کسی لڑکے نے لڑکی کو بس میں چھیڑا ہے۔ یہ خدشات درست ہے لیکن ان سب کی وجہ سے ہم لڑکیوں کو گھروں میں تو نہیں بٹھا سکتے۔

اب کچھ لڑکیوں کو باہر جانے کی اجازت مل بھی جاتی ہے۔ کچھ  والدین نے  اب یہ بات سمجھ لی ہے کہ ایک لڑکی اب اتنی باشعور ہو گئی ہے کہ وہ اچھے برے میں فرق کر سکتی ہے۔ اپنی حفاظت خود کر سکتی ہے۔

مگر اب بھی بہت سے ایسے والدین ہیں جو لڑکیوں کو کہیں جانے نہیں دیتے، ہمیں اس سوچ کو بدلنا ہوگا۔ ہمیں معاشرے کی منفی سوچ کو مثبت میں بدلنا ہوگا ۔والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی بیٹیوں کو پرواز کے لیے خود تیار کرے نہ کہ ان کے پروں کو جڑ سے کاٹ دیا جائے۔ ہمیں لڑکے اور لڑکی کی تفریق کو ختم کرنا ہوگا۔ دونوں کو ایک جیسے مواقع فراہم کرنے ہوں گے تاکہ دونوں اپنی خواہشات پورے کرنے میں کامیاب ہو۔

رعناز ٹیچر اور کپس کالج مردان کی ایگزام کنٹرولر ہیں اور صنفی اور سماجی مسائل پر بلاگنگ بھی کرتی ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button