کرم میں جاری تنازعہ کی اصل وجوہات کیا ہیں؟
نبی جان اورکزئی
قبائلی ضلع کرم میں گزشتہ کئی دنوں سے دونوں فریقین کی جانب سے زمینی تنازعات پر مسلح جھڑپیں جاری ہیں جس کو اب فرقہ واریت کا نام دیاگیا ہے۔ ان جھڑپوں نے اب مزید شدت اختیار کرلی ہے۔ تمام تر کوششوں کے باوجود بھی نہ انتظامیہ اور نہ ہی قبائلی جرگہ ان خون ریز جھڑپوں کو ختم کرنے میں کامیاب ہوا۔ ضلعی انتظامیہ کے مطابق جاری جنگ میں اب تک دونوں طرف سے 9 سے زیادہ لوگ جاں بحق ہوئے ہیں جبکہ یہ جنگ مختلف مقامات پر تاحال جاری ہے۔ ضلع بھر میں حالات کشیدہ ہے اور لوگوں میں خوف و ہراس پیدا ہوگیا ہے۔
ضلع کرم میں جھڑپیں کہاں اور کس کے مابین جاری ہے؟
اپر کرم میں علاقہ تری منگل (اہل سنت) اور پیواڑ و دیگر گاؤں (اہل تشیع) کے مابین پچھلے کئی مہینوں سے جھڑپیں جاری ہیں۔ دیگر علاقوں میں بوشہرہ (اہل سنت) اور ڈنڈر و دیگر گاؤں (اہل تشیع) کے مابین خون ریز جنگ جاری ہے۔ اپر ہی کرم کے تیری مقام غوزگھڑی مقبل، خومسئہ چمکنی (اہل سنت) اور کڑمان، کونج علیزئی و دیگر گاؤں (اہل تشیع) کے درمیان جھڑپیں جاری ہے۔
اسی طرح لوئر کرم میں خار کلی و دیگر گاؤں (اہل سنت) اور بالیش خیل و دیگر گاؤں (اہل تشیع) کے مابین جھڑپیں جاری ہیں۔ ان جھڑپوں کی نتیجے میں دونوں اطراف سے 9 سے زیادہ افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق کچھ روز قبل اپر کرم میں ڈنڈر (اہل تشیع) گاؤں کے مقام پر مبینہ طور پر نئی آبادی روکنے کیلئے بوشہرہ نامی (اہل سنت) گاؤں سے کچھ لوگ ڈنڈر گئے تو اس پر بات فرقہ واریت جنگ تک پہنچ گئی۔ اسی زمینی تنازعہ کے بعد فرقہ واریت جنگ پورے کرم تک پھیل گئی اور اب دونوں اطراف سے بڑے ہتھیاروں کا استعمال ہوتا ہے۔
مختلف ہسپتالوں کو لائے گئے جاں بحق اور زخمی افراد
ہسپتال ذرائع کے مطابق چھ دنوں سے جاری جھڑپوں میں کرم کے مختلف ہسپتالوں کو اب تک 70 زخمیوں اور 7 جاں بحق افراد کو لایا گیاہے۔
میڈیکل سپرنٹینڈنٹ ڈی ایچ کیو پاڑاچنار ڈاکٹر تاجر حسین کا کہنا ہے کہ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال پاڑاچنار میں مختلف علاقوں سے اب تک دو جاں بحق افراد اور 39 زخمیوں کو طبی امداد کیلئے لایا گیا ہے جس میں ایک زخمی کی حالت تشویشناک تھی اس کو پشاور ریفر کر دیا گیا جہاں پر وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔
میڈیکل سپرنٹینڈنٹ ٹی ایچ کیو صدہ ڈاکٹر واجد علی شاہ کے مطابق لوئر کرم میں جاری جنگ کے نتیجے میں تحصیل ہسپتال صدہ میں اب تک چار ڈیڈ باڈیز لائی گئی ہے جس میں ایک خاتون بھی شامل ہے۔ اسی طرح 14 زخمیوں کو لایا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کچھ زخمیوں کی حالت تشویشناک تھی انکو پشاور منتقل کردیا گیا۔ اسی طرح سات زخمیوں کو ڈوگر ہسپتال منتقل کیا گیا جن میں دو زخمیوں کو پشاور ریفر کر دیا گیا۔
مخدوش حالات کے پیش نظر مقامی انتظامیہ نے ضلع بھر میں انٹرنیٹ سروس بھی بند کر دی ہے۔ اس کے علاوہ سیکیورٹی اور موجودہ حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے ضلع بھر میں تمام پرایٸویٹ سکولز اور کالجز عارضی طور پر بند کر دئے ہیں۔ مین ٹل پاڑاچنار روڈ بھی بند ہیں۔
حکومت خیبر پختونخوا نے بھی کرم میں جاری کشیدہ صورتحال پر نوٹس لیتے ہوئے سرکلر جاری کیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ کرم کے موجودہ حالات کا سنجیدگی سے جائزہ لے رہے ہیں اور اراضی تنازعات کے مستقل حل کیلئے جامعہ پلان ترتیب دی ہے۔
اس سلسلے میں محکمہ مال نے بھی اپنی کوششیں شروع کردی ہے۔ حکومت نے کرم کشیدگی ختم کرنے کیلئے تیس رکنی جرگہ بھی تشکیل دے دیا ہے۔حکومت خیبر پختونخوا کی جانب سے جاری سرکلر میں بھی کہا گیا ہے کہ موجودہ زمینی تنازعات اور کشیدگی کو فرقہ واریت کا رنگ دینے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی عمل لائی جائی گی حکومت سوشل میڈیا کو بھی مانیٹر کر ہی ہے۔ حکومت نے ان علاقوں میں مزید فوج اور ایف سی کو تعینات کرنے کی بھی درخواست کر دی ہے۔
کرم میں جنگ بندی کیلئے کوششیں تیز
اسسٹنٹ کمشنر لوئر کرم صدہ عدنان کا کہنا ہے کہ مقامی انتظامیہ روز اول سے جنگ بندی کیلئے اپنا کردار ادا کر رہی ہے جبکہ اس کے علاوہ 30 رکنی جرگہ وفد بھی ضلع کرم ایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈی سی کوہاٹ عصمت وزیر کی سربراہی میں ائے ہوئے جرگے نے لوئر کرم صدہ میں قبائلی مشران و عمائدین سے تفصیلی ملاقات کی اور اب وہ پاڑاچنار روانہ ہوگئے جہاں پر بھی دونوں فریقین سے ملاقاتیں کریں گے اور جنگ بندی پر زور دینگے۔ انہوں نے کہا کہ مقامی لوگوں نے ائے ہوئے وفد کا خیر مقدم کیا اور علاقے میں جنگ بندی کیلئے پر زور دیا ہے۔ اے سی عدنان کا کہنا ہے کرم میں جاری جھڑپوں میں دونوں طرف سے اب 9 سے زیادہ افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔
اسی طرح اسسٹنٹ کمشنر اپر کرم حفیظ نے ٹی این این کو بتایا کہ اپر کرم میں وفاقی وزیر ساجد حسین طوری کی سربراہی میں پاڑاچنار میں دونوں فریقین کے ساتھ کامیاب جرگہ ہوا جس کے نتیجے میں اپر کرم کے کشیدہ علاقوں میں مسلح افراد نے کچھ مورچوں کو بھی خالی کر دیا ہے جبکہ اس کے علاوہ گرینڈ جرگہ بھی پاڑاچنار پہنچ گیا کہ دوسرے فریق کے ساتھ تفصیلی بیٹھک کر یگا اور ہمیں امید ہے کہ اس کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔
کمشنر کوہاٹ ڈویژن محمد علی شاہ کی ہدایت پر ڈپٹی کمشنر کوہاٹ ڈاکٹر عظمت اللہ وزیر کی سربراہی میں ضلع کوہاٹ، ضلع ہنگو اور ضلع اورکزئی کا 30 رکنی اہل تشیع و اہل سنت پر مشتمل امن جرگہ ضلع کرم پہنچ گیا۔کوہاٹ سے امن وفد ڈپٹی کمشنر کوہاٹ ڈاکٹر عظمت اللہ وزیر کی نگرانی میں ضلع کرم کے مشران اور علاقہ عمائدین کے ساتھ مل کر کرم میں امن وامان و بحال کرنے کے حوالے سے اپنا کردار ادا کریں گے۔ جرگے نے پہنچتے ہی لوئر کرم صدے سے کشیدگی ختم کرنے کیلئے اپنی کوششیں شروع کر دی ہے۔
اس پہلے بھی ڈپٹی کمشنر کرم سیف الاسلام، وفاقی وزیر ساجد حسین طوری، ڈی پی او کرم محمد عمران اور قبائلی مشران و عمائدین نے بوشہرہ اور ڈنڈر میں جاری جنگ بندی کیلئے کوششیں کیں لیکن بے سود رہی۔
کشیدہ علاقوں میں پھنسے لوگ کیا کہتے ہیں؟
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے اپر کرم بوشہرہ سے تعلق رکھنے محمد رؤف کا کہنا تھا کہ بوشہرہ میں پچھلے پانچ دنوں سے حالات انتہائی کشیدہ ہے اور پورے علاقے کے لوگ محصور ہوکر رہ گئے ہیں۔ علاقے میں اشیاء خوردونوش کی کمی کا خدشہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر رات کو بوشہرے پر مختلف علاقوں سے لشکر کشی ہو رہی ہے جس کے نتیجے میں اب تک ہمارے گاؤں چار افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔
اسی طرح لوئر کرم کے علاقہ بالش خیل جہاں جھڑپ جاری ہے سے تعلق رکھنے فرہاد علی کا کہنا ہے کہ موجودہ کشیدہ حالات سے کرم میں دونوں فریقین انتہائی مشکلات سے دو چار ہے۔ بالیش خیل اور دیگر گاؤں جہاں حالات خراب ہے سے لوگوں نے محفوظ مقامات کی طرف نقل مکانی شروع کردی ہے۔ علاقے میں خوف کا سماں ہے۔ گزشتہ ایک ہفتے سے اپر کرم پاڑاچنار میں اشیائے خوردونوش کا ایک ٹرک بھی نہیں ایا ہے۔ جنگ میں زخمی ہونے والے افراد کو طبی امداد بھی نہیں مل رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اندھیرا ڈھلتے ہی دونوں اطراف سے بڑے ہتھیاروں کا استعمال شروع ہوجاتا ہے۔