بلاگزلائف سٹائل

سخت گرمی میں ہم خواتین کو کیوں بھول جاتے ہیں؟

 

سدرا ایان

بڑھتی ہوئی گرمی کی وجہ سے ہر کوئی مشکلات کا شکار ہے اور گرمی انکے کاموں کو اور بھی مشکل بنارہی ہے۔
ایسے میں ہر پلیٹ فارم پر گرمی سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا کہا جارہا ہے جس میں یہ بھی بتایا جارہا ہے کی ہیٹ سٹروک سے بچے ، بزرگ ، گھر سے باہر کام کرنے والے مرد حضرات اور حیوان متاثر ہو سکتے ہیں اور یہ کئی جگہ میں نے پڑھا۔

میں یہ سوچ رہی ہوں کہ حیوانوں تک کا خیال ہے ان لوگوں کو لیکن کچن میں کام کرنے والی عورتوں کا کوئی ذکر نہیں نہ انکا کسی کو خیال ہے۔ جتنا ایک مزدور تپتی دھوپ میں مزدوری کر رہا ہوتا ہے بالکل ویسے ہی ہماری مائیں اور بہنیں پچاس ڈگری میں کچن میں گھس کر کھانا بناتی ہے وہ بھی صرف ایک وقت نہیں اور کچن کے علاوہ تپتی دھوپ میں گھر کی صفائی بھی کرتی ہیں جھاڑو لگاتی ہے ، کپڑے دھوتی ہے۔

کچھ لوگوں کو لگتا ہے کہ خواتین تو گھروں میں بیٹھی ہوئی ہوتی ہیں بس سب کچھ تیار ملتا ہے جو دل چاہے تیار کر لیتی ہے۔ سب کے ذہنوں میں بس یہی بات ہی ہوتی ہے کہ خواتین گھروں میں بیٹھ کر صرف کھانا تیار کرتی ہے لیکن یہ لوگ یہ نہیں سوچتے کہ انھیں دن میں تین وقت کھانا کہاں سے ملتا ہے۔ صاف ستھرے استری شدہ کپڑے کہاں سے ملتے ہیں روز جب یہ اٹھتے ہیں اور گھر سے نکلتے ہیں تو گھر بکھرا پڑا رہتا ہے جب واپس آتے ہیں تو ہر چیز صاف ستھرا ہوتا ہے اور سجے سجائے گھر میں قدم رکھتے ہیں۔

اکثر خاندانوں میں کچھ مرد ایسے ہوتے ہیں جو مزاق بھی اڑاتے ہیں کہ تم ارام سے گھر میں بیٹھی ہوئی ہوتی ہو تمھارا ذیادہ سے ذیادہ کیا کام ہوگا جاؤ جھاڑو لگاؤ اور پھر سرا دن بیٹھی رہو۔  ایسا نہیں ہوتا ہماری مائیں تب اٹھتی ہے جب سارے گھر والے سو رہے ہوتے ہیں ، چاہے سخت سردی ہو تب بھی سب سے پہلے اٹھتی ہے ٹھنڈے پانی سے برتن دھوتی ہیں ناشتہ تیار کرتی ہے یا سخت گرمی ہوتی ہے تو کچن کی جھلسنے والی گرمی میں بیٹھ کر ناشتہ تیار کرتی ہیں۔ سب کو تیار ناشتہ ملتا ہے کسی کو کیا پتہ دھوپ میں چولہے کے پاس بیٹھنا تک کتنا مشکل ہوتا ہے۔ گرمیوں میں تو سورج صبح سات آٹھ بجے ہی نکل آتا ہے گیارہ بجے جب گھر کی صفائی کرنے لگ جاؤ تو جسم پسینے سے شرابور اور جلنے لگتا ہے اور گھر کی صفائی مکمل نہیں ہو چکی ہوتی کہ دوپہر کے کھانے کا انتظام کرنا پڑتا ہے۔ آٹا گوندھنا ہوتا ہے لیکن نمک غلطی سے بھی کم یا زیادہ نہ ہو کیوں کہ بھائی کو کم نمک پسند نہیں اور ابو کو ذیادہ ، اس لیے آپ کو ایک پرفیکٹ مشین ہونا چاہیے اسکے بعد دو قسم کے سالن تو بننے ہی چاہیے ایک میں نمک مرچ ہو جبکہ دوسرا پرہیزانہ ہو باقی سلاد، رائتہ ،لسی اور بعد میں چائے تو چھوٹے کام ہیں اسے تو شامل ہی نہیں کرنا۔

دوپہر کا کھانا ختم ہو جائے تو گھر والے ٹی وی لگا کر آرام سے بیٹھ جاتے ہیں لیکن مائیں یا بہنیں پھر سے صفائیاں کرنے لگ جاتی ہیں شام تک کپڑے دھو لیں یا کپڑے استری کرلیں کیوں کہ اسکے بعد رات کے کھانے کی تیاری شروع کرنی ہوتی ہے۔

تب سب گھر والے یا تو اے سی میں بیٹھے ہوتے ہیں یا پنکھے کے نیچے جہاں کمرے میں آرام سے بیٹھ کر آپ کا گزارہ نہیں ہوتا وہاں گرم کچن میں آپکے لیے کھانا تیار ہو رہا ہوتا ہے وہ بھی ایسے کہ ذائقہ اچھا ہو نمک مرچ کم یا زیادہ نہ ہو۔ اب یہ وہ سارے کام ہیں جو خواتین کو کرنے ہوتے ہیں اب خود سوچیں اگر کوئی خاتون جاب کرتی ہے تو بھی اسے یہ سب بھی کرنا ہوتا ہے یا اگر گھر کا کام سکول کالج جانے والی بہنیں کرتی ہیں تو ان پر کتنا بوجھ ہوتا ہے وہ کیسے مینج کر لیتی ہونگی۔

اگر ہم کسی ہوٹل میں جا کہ دیکھ لیں تو ہمیں پتہ چل جائیگا کہ صفائی ایک بندہ کرتا ہے ، کھانا کوئی اور بناتا ہے میز پر لگاتا کوئی اور ہے مطلب ہر کام کے لیے ایک الگ الگ بندہ رکھا ہوا ہوتا ہے جسکی انہیں تنخواہیں ملتی ہیں جبکہ یہی سات آٹھ ملازموں کے کام ایک ماں یا ایک بہن یا ایک بہو کو کرنا پڑتے ہیں۔ ایسے میں اسکو اپنے لیے کیا وقت ملتا ہوگا ذیادہ سے ذیادہ وہ اپنا کیا خیال رکھ پائے گی اور یہ بھی ان خواتین کا فرضی شیڈول تھا جنکے چھوٹے بچے نہیں ہوتے ورنہ کام کے دوران بچوں کو سنبھالنا کسی بزنس کو سنبھالنے سے کم نہیں ہوتا۔

اس گرمی میں یہ سارے کام کرتے ہوئے اگر کسی خاتون کی طبیعت بگڑ جائیں تو شائد کچھ لوگوں کو یہ ڈرامہ لگے لیکن جسطرح کوئی مرد باہر جاکر کام کرتا ہے ویسے خاتون ایک ہی چاردیواری میں بیٹھ کر وہی ایک جیسے کام ہر دن دہراتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اگر وہ ٹھیک بھی ہوں تب بھی ڈاکٹر کے پاس لے جاکر معائنہ کروائے ، پارلر جانے کی اجازت اور پیسے دیں کہ وہ بھی اپنی خوبصورتی کو کچن میں گنوانے کے بجائے پارلر جاکر اپنا خیال رکھ کر مزید نکھاریں۔ انکے کام کی تعریف کریں انھیں سراہے اور انکی ضروریات کا خیال رکھیں کیوںکہ یہ وہ ہستیاں ہوتی ہیں جو سارا گھر چلاتی ہے جنکی بدولت مرد بلا جھجک کام پہ جاتا ہے بغیر کسی فکر کیے کہ میری بیوی گھر میں اکیلی ہے یا میرے گھر کا کیا ہوگا۔ اگر ہماری خواتین صحتمند اور خوش رہے گی تو وہ اپنی ذمہ داریوں کو بھی ٹھیک سے پورا کر سکیں گی۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button