تعلیم

سیلاب نے بلوچستان کے 34 اضلاع میں 2859 سکولز تباہ کئے

 

عزیز الرحمن سباون

‏‎بلوچستان کے ضلع صحبت پور میں ایک پرائیوٹ سکول میں پڑھانے والی زبیدہ حمید پچھلے نو مہینوں سے اپنے سیلاب سے متاثرہ گھرمیں بکھرے ہوئے سامان کے ساتھ سٹور روم میں بغیر کسے روزگار کے رہنے پر مجبور ہے۔ درس و تدریس  کے شعبے میں پانچ سالہ تجربہ رکھنے والی زبیدہ حمید کی زندگی نو مہینے پہلے تک اتنی بے رنگ نہیں تھی۔ سال 2022 کے اگست مہینے کے آخری ہفتے میں مسلسل تیز بارش کے باعث بننے والے سیلاب نے نہ صرف زبیدہ حمید کا گھر بلکہ پورے صحبت پور ضلعے کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا۔ زبیدہ حمید نے بتایا کہ وہ گھر سے کچھ ہی فاصلے پر موجود ایک پرائیوٹ ماڈل سکول میں آٹھ ہزار روپے کے عوض پڑھاتی تھی جو سیلاب کے سبب بند ہوگیا ہے۔ زبیدہ کے مطابق گھر کے نقصان کی نبسبت اسکول کا بند ہونا انکے لئے کافی زیادہ نقصان کا سبب بنا ہے۔

‏‎“اسکول میں پڑھانے کے بدلے مجھے جو تنخواہ ملتی تھی اس سے میں اپنے دو بچوں اور گھر کی چھوٹی موٹی ضروریات پورا کرتی تھی مگر اب جب سے سیلاب کے بعد سکول بند ہوا ہے ہمارا سارا گزارہ خاوند کے دیہاڑی سے ہی ہوتا ہے جس سے زیادہ تر وقت دو وقت کی روٹی ہوجاتی ہے کبھی کبھار تو وہ بھی نصیب میں نہیں ہوتی اور خالی پیٹ سونا پڑتا ہے۔”

‏‎بلوچستان کے محکمہ تعلیم کے سیکرٹری عبدالرؤف بلوچ کے مطابق بلوچستان کے 34 اضلاع میں اس وقت 30 ہزار دو سو ساٹھ سے زائد پرائمری مڈل اور ہائی سکولز ہیں جس میں سال 2022 میں آنے والے سیلابوں سے دو ہزار آٹھ سو انسٹھ سرکاری سکولز متاثر ہوئے جس میں  تین لاکھ چھیاسی ہزار چھ سو سے زائد پڑھنے والے طلبہ و طالبات کے ساتھ ساتھ 17 ہزار چھ سو چھ استاد اور سکول میں کام کرنے والے سٹاف بھی متاثر ہوئے ہیں۔

‏‎پرائیویٹ سکولز ایسوسی ایشن کے صدر نظر بڑیچ نے بتایا کہ سرکاری سکولوں کے ساتھ ساتھ پچھلے سال بلوچستان کے جعفر آباد اور نصیر آباد ڈویژن کے ان دور دراز علاقوں میں جہاں ابھی تک حکومت نے سرکاری سکولز نہیں بنائے وہاں پر تیس کے قریب پرائیویٹ سکولز بھی نقصانات سے دوچار ہوئے۔ نظر نے مزید بتایا کہ سیلابوں سے متاثر ہونے والے ان پرائیوٹ سکولوں میں چھ ہزار پانچ سو سے زائد طلبہ و طالبات کا تعلیمی سال بری طرح متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ انہیں کسی بھی ادارے کے طرف سے کوئی ریلیف نہیں دیا گیا۔

‏‎“مختلف این –جی -اوز کے ساتھ ساتھ حکومت خود بھی متاثرہ سکولوں کو دوبارہ بنانے اور آباد کرنے کا کام کررہی ہے مگر پرائیوٹ سکولز چونکہ اپنی مدد آپ کے تحت ہم چلاتے ہیں تو سیلابوں کے بعد زیادہ تر سکولز یا تو ایک مکان سے دوسرے مکان میں شفٹ ہوگئے ہیں اور یا پھر اسی پرانے مکان مالکان نے اسے دوبارہ بنانے کی کوشش کی ہے۔ ہمیں حکومت اور نہ ہی این جی او سیکٹر سے کوئی امداد ملی ہے ہمیں اپنے سکولوں کیلئے تدریسی سامان اور متاثر اساتذہ کیلئے مالی معاونت درکار ہے۔”

‏‎بلوچستان کے محکمہ تعلیم سے رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت ملنے والے اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان سال 2022 کے سیلاب کے بعد 34 اضلاع میں موجود 15 ہزار ایک سو 68 سکولوں میں سے 12 ہزار دو سو 60 سکولز آٹھ ہزار تین سو پندرہ لڑکوں کے تین ہزار چار پچھیس لڑکیوں کے اور پانچ سو بیس ایسے سکولوں کا سروے کیا گیا ہے جس میں کوایجوکیشن کے تحت تعلیم دی جاتی ہے۔ جس میں 39 فیصد کے علاوہ اکسٹھ فیصد سرکاری سکولز متاثر ہوئے ہیں۔ آٹھ فیصد پوری طرح پر چھ فیصد خراب اور خطرناک، نو فیصد زیادہ تر خراب مگر کچھ کلاسیں بچی ہوئی ہے اور سینتیس نیم خراب مگر محفوظ شمار کئے گئے ہیں۔

‏‎سیکریٹری تعلیم عبدالروف بلوچ نے انٹرویو دیتے ہوئے بتایا ‏کہ سال 2022-23 کے لئے بلوچستان کے کل بجٹ 612 بیلین روپے میں سے صرف 19.77 بیلین روپے تعلیم کے لئے مختص کئے گئے تھے جو ناکافی تھے۔ عبدالروف کے مطابق اتنے کم بجٹ کے ساتھ ایسی سیلابی صورتحال میں آٹے میں نمک کے برابر ہے۔

‏‎“ہم نے پچھلے سال بھی بجٹ بڑھانے کی کوشش کی تھی جو آخر کار ہمیں 19.25 میلین روپے کی ملی اور آئندہ مالی سال میں اگر چہ بلوچستان حکومت کے مالی حالات کچھ اچھے نہیں ہیں مگر ہماری ضرورت اتنی بڑھ گئی ہے کہ کم از کم پچھلے سال کے بہ نسبت بیس سے پچیس فیصد اضافہ ملنا چاہئے۔  اگر ہمیں پچھلے  سال کی طرح اس سال بھی چھوٹا بجٹ دیا گیا تو ہمیں نہ صرف نئے تعلیمی ادارے بنانے میں مشکلات ہونگے بلکہ سیلابوں کی وجہ سے تباہ ہونے والے تعلیمی نقصان کو پورا کرنا بھی ناممکن ہوگا۔

‏‎سیلاب  کے بعد دوسرے این –جی اوز کے ساتھ ساتھ بچوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والا اقوام متحدہ کے ادارے UNICF  کے مطابق سیلاب کے بعد انہوں نے سات ہزار پانچ سو 73 لڑکوں اور پانچ ہزار نوے لڑکیوں کیلئے 155 خیمہ سکولز، پندرہ ہزار چار سو 89 لڑکوں اور تیس ہزار نو سو پچاس لڑکیوں کیلئے 125 سکولوں سے ڈی واٹرنگ یا سیلابی پانی سے بھرے سکولز دوبارہ تعلیم کے قابل بنائے۔ نو ہزار آٹھ سو ستر لڑکوں اور تین ہزار چھ سو اسی لڑکیوں کیلئے 178 نیم خراب جزوی متاثر سکولز کو دوبارہ بنانے کے بعد آباد کرنا، چوبیس ہزار نو سو چھپن لڑکوں اور دس ہزار سات سو چوبیس لڑکیوں کے لئے 216 وہ سکول جو پوری طرح خراب ہوئے تھے بنانے کے بعد دوبارہ آباد اور ایسے گاڑی سکولز بھی بنائے ہیں سیلاب سے متاثرہ اضلاع میں وقتا فوقتا ایک جگہ سے دوسرے جگہ کا چکر لگاتی رہتی ہے۔

‏UNICF کے ایک آفیسر نقیب خلجی نے بتایا کہ اس سارے پروسیس میں ابھی تک صرف ان کے ادارے نے پچاس کروڑ کے قریب فنڈز لگائے ہیں جس میں انکے زیادہ تر پروجکٹس اب بھی جاری ہے۔

‏‎“ہم نے سیلاب کے بعد سب سے پہلے ان سکولوں میں جو پانی سے بھر گئے تھے ان کو خالی کرانا شروع کیا جس میں ایک لاکھ سے زائد خرچہ ایک سکول کا آنے لگا پھر ہم نے ان سکولوں کو جن کے چھت کھڑکیاں اور یا پھر دروازے اکھڑ گئے تھے انکودوبارہ بنانے کی کوشش شروع کی جس میں سات لاکھ سے زائد ایک سکول کا خرچہ آنے لگا،آنے لگا پھ پھر ہم نے ان سکولوں پر کام شروع کیا جو سیلابوں کی وجہ سے پورے طور پر خراب ہوگئے تھے تو ہم نے دوبارہ وہاں عارضی کلاس رومز بنانے شروع کئے جس میں آٹھ لاکھ سے زائد خرچہ آنے لگا آنے لگا پھاس کے علاوہ ہم نے ان علاقوں میں جہاں آبادی دوسرے جگہ منتقل ہوئی ہے وہاں خیمہ اور گاڑی سکولز متعارف کرائے جو اب بھی وقتا فوقتا چلتے ہیں۔”

‏‎کوئٹہ سے دس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہنہ وڑک میں گھریلو خاتون آسیہ فضل نے بتایا کہ سیلاب میں انکا گھر رہنے کے قابل نہیں رہا تھا اور انہیں مجبوراً کوئٹہ شہر میں موجود اپنے بھائی کے گھر شفٹ ہونا پڑا۔ آسیہ کے مطابق ان کے لئے سب سے تکلیف دہ مرحلہ وہ تھا جب انکے شوہر کا رکشہ جس سے گھر کا چولہا چلتا ہے بھی اپنی واحد زریعہ معاش بھی سیلاب میں بہہ گیا۔ آسیہ کہتی ہے کہ انکے گھر پر اس وقت خدا مہربان ہوا جب انکا شوہر کو UNICF کے فلڈ پروجکٹ میں گاڑی سکول کے طور پر ڈرائیونگ کرنے کا موقع ملا۔

‏‎“سیلاب کے بعد جب گھر کے ساتھ ساتھ رکشہ بھی ناقابل استعمال ہوکر رہ گیا تو ہمیں بہت مایوسی ہوئی مگر جب میرے خاوند کو ڈرائیونگ کے طور پر یہ کام ملا تب سے ہماری زندگی کا پہیہ دوبارہ چلنے لگا ہے۔”

‏UNICF  کے اہلکار نقیب خلجی کے مطابق انہوں نے فلڈز میں سکولوں کے ساتھ ساتھ ان لوگوں پر بھی فوکس رکھنے کی کوشش کی ہے جو سیلاب سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔

‏‎“سیلاب اتنے بڑے پیمانے پر تھے کہ ہر کوئی اور زندگی کا ہر شعبہ متاثر ہوا ہے اسی لئے ہم نے جہاں جہاں بھی ترقیاتی کام کئے ہے تو ہم نے لوکل مزدوروں اور بزنسز کو بھی پروموٹ کرنے کی کوشش کی ہے مثال کے طور پر ہم نے ریت بجری اور سینٹ وغیرہ لوکل لوگوں سے لی ہے اسی طرح مشینری اور مزدور بھی نزدیکی رہائشی ہے جو قریب ترین آباد ہے اور سیلابوں سے متاثر ہوئے ہیں۔”

‏‎حکومتی رپورٹس کے مطابق سیلاب کے وجہ سے 18 فیصد کسی حد تک جبکہ 17 فیصد وہ بچے جو سکولوں میں تعلیم حاصل کررہے تھے وہ زہنی طور پر بھی مکمل طور پر متاثر ہوئے ہیں۔ ‎سائکاٹرسٹ ڈاکٹر زرمینا ترین کے مطابق اس طرح کے ایمرجنسی کے صورت میں پیدا ہونے والے حالات انسانوں خاص کر بچوں پر کافی برا اثر چھوڑتا ہے جس کو دور کرنے کی مکمل کوشش کرنی چاہئے۔

‎“جب اس طرح کے حالات سے انسانوں کا سامنا ہو کہ انکا گھر بار سب ایک دم سے ختم ہوں تو زہنی طور پر وہ انسان بہت حد تک متاثر ہوجاتا ہے خاص کر بچے تو اور بھی حساس ہوتے ہیں تو اسی لئے ان بچوں کے خصوصی سیشن ہونے چاہئے تاکہ وہ اس تکلیف دہ عمل سے نکل کر واپس پرانے اور اصلی حالت میں آسکے۔”

‎کوئٹہ کے سردار بہادر خان ومین یونیورسٹی میں ماحولیات کا موضوع پڑھانے والی پروفیسر نیلوفر جمیل نے بتایا کہ سال 2022 میں آنے والے سیلاب پاکستان کے تاریخ کا سب سے خطرناک سیلاب تھے جس نے زندگی کے ہر شعبے اور فرد کو متاثر کیا۔ یہ فلڈز پاکستان کے اب تک سب سے خطر ناک فلڈز تھے اور تیزی سے واقع ہوتی موسمیاتی تبدیلی کے باعث یہ خطرہ دن بدن کم ہونے کے  بجائے زیادہ ہورہا ہے۔

انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی (آئی آر سی) نے رواں سال مارچ کے اخیر میں اپنی جاری کردہ رپورٹ میں بلوچستان کے مختلف اضلاع میں سیلاب کے باعث شدید انسانی بحران سے خبردار کیا ہے۔ اس رپورٹ میں پیشن گوئی کی گئی ہے کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ صحت، رہائش خوراک اور صفائی میں بحالی کا کام تیز نہ کرکے نہ صرف سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں مقیم افراد بلکہ پورے صوبے اور ملک کیلئے طویل مدتی سنگین نتائج کا امکان پیدا ہوگا۔  دوسری طرف بلوچستان حکومت نے انیس جون کو پاس ہونے والے 2023-24  بجٹ میں سیلاب سے متاثرہ اضلاع کیلئے مجموعی طور پر 578 ارب روپے کے منصوبے شروع کرنے کی منظوری دے نے کے ساتھ ساتھ تعلیم کے شعبے کے لئے مجموعی طور پر 77 ارب روپے منظور کی ہیں جس میں غیر ترقیاتی منصوبوں کے مد میں 65 ارب اور شعبہ تعلیم میں ترقیاتی کاموں کے مد کے لئے صرف 12ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔

مجموعی طور پر سال 2022 میں بلوچستان کے 34 میں سے 30 اضلاع میں تین ہزار کے قریب سکولز جن میں تین لاکھ نوے ہزار کے قریب طلبہ و طالبات کے ساتھ 17 ہزار چھ سو سے زائد میل اور فی میل اساتذہ متاثر ہوئے۔

نوٹ۔ یہ سٹوری پاکستان پریس فاونڈیشن کی تحقیقاتی فیلوشپ کا حصہ ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button