‘تمباکو کی وہ فصل موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے محفوظ ہے جو دیر سے کاشت کی گئی تھی’
افتخار خان
خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی سے تعلق رکھنے والے تمباکو کاشت کار محمد علی کہتے ہیں کہ فروری میں فصل کی کاشت کے بعد سے لے کر اب تک مجموعی طور پر 9 دفعہ ژالہ باری ہوئی ہے، رواں سال اس دورانیہ میں تقریباؑ ہر بارش کے ساتھ حیران کن طور پر ژالہ باری بھی ہوئی ہے جو کہ ہماری فصلوں بالخصوص تمباکو کے لئے تباہ کن ثابت ہوئی ہے۔
ڈاگئی گاؤں سے تعلق رکھنے والے محمد علی نے 15 ایکڑ (6 ہیکٹیر) پر تمباکو کی فصل کاشت کی ہے جس سے پتے توڑنے اور بھٹی میں خشک کرنے کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پے در پے ژالہ باری سے فصل کی پیداوار پر بہت گہرا اثر پڑا ہے، زیادہ تر پتے ٹوٹ چکے ہیں یا سوراخ ہونے کی وجہ سے ناکارہ ہو چکے ہیں۔ محمد علی کا دعویٰ ہے کہ ان ژالہ باریوں سے صوابی ضلع میں تمباکو کی 40 سے 45 فیصد فصل خراب ہو چکی ہے۔
پاکستان ٹوبیکو بورڈ کے مطابق ملک میں سگریٹ میں استعمال ہونے والے فلو کیورڈ ورجینیا یا ایف سی وی تمباکو کا 97 فیصد خیبر پختونخوا میں پیدا ہوتا ہے جس میں 50 فیصد سے زیادہ صرف صوابی ضلع میں اگایا جاتا ہے۔
بورڈ کے مطابق خیبر پختونخوا میں رواں سال تمباکو کے زیر کاشت 26 ہزار ہیکٹیرز میں 12 ہزار ہیکٹرز تک رقبہ صوابی میں ہے۔ بورڈ کو رواں سال تمباکو کمپنیوں کی جانب سے 85 ملین کلوگرام کی ڈیمانڈ آئی ہے جبکہ مجموعی پیداوار کا اندازہ 119 ملین کلوگرام تک لگایا گیا ہے۔ خیبر پختونخوا میں ضلع صوابی کے علاوہ مردان، چارسدہ، مانسہرہ اور بونیر میں بھی بڑے پیمانے پر تمباکو کاشت کیا جاتا ہے۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ڈیٹا کے مطابق پاکستان نے پچھلے مالی سال میں تمباکو کی صنعت سے 160 ارب روپے کے ٹیکسز جمع کئے تھے جبکہ رواں سال کے لئے یہ ہدف 200 بلین روپے رکھا گیا تھا۔
محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن خیبر پختونخوا کے ڈیٹا کے مطابق تمباکو کے شعبے سے صوبے کو تمباکو ڈیویلپمنٹ سیس کی مد میں 50 کروڑ تک روپے جمع کیے جا چکے ہیں۔ تمباکو ڈیویلپمنٹ سیس کی مد میں ایف سی وی تمباکو پر 3 فیصد جبکہ وائٹ پتہ پر 2 اعشاریہ 5 روپے تک ٹیکس لاگو ہے۔ اس کے علاوہ نسوار پر 2 روپے ٹیکس لیا جاتا ہے۔
پاکستان ٹوبیکو بورڈ کے ڈیٹا کو دیکھا جائے تو ملکی خزانے کو اربوں روپے سالانہ نفع پہنچانے والی اس فصل کی پیداوار پچھلے چند سالوں سے گرتی چلی آ رہی ہے۔ 2014 میں ملک بھر میں تمباکو کی مجموعی پیداوار 129 ملین کلوگرام تھی جو پچھلے سال تک کم ہو کر 108 کلوگرام تک آ چکی ہے۔ رواں سال بورڈ نے 119 ملین کلوگرام پیداوارکا اندازہ لگایا ہے لیکن کاشتکار کہتے ہیں کہ ژالہ باری سے یہ پیداوار بہت کم ہوئی ہے اور اس ضمن میں بورڈ کو اپنے ڈیٹا پر نظرثانی کی جانی چاہئے۔
تمباکو کی فصل پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات
تمباکو کی پیداوار میں کمی کی مختلف وجوہات بیان کی جا رہی ہیں؛ بعض ماہرین ملک میں تمباکو کی ڈیمانڈ میں کمی کو بڑی وجہ قرار دے رہے ہیں تو بعض اسے موسمیاتی تبدیلی سے بھی جوڑ رہے ہیں۔
صوابی میں تمباکو کی کاشت سے وابستہ اور ٹوبیکو گروورز ایسوسی ایشن پاکستان کے چئیرمین لیاقت یوسفزئی کہتے ہیں کہ مئی اور جون کے آغاز میں تمباکو کی فصل کے لئے 38 سے 40 درجہ حرارت چاہئے ہوتا ہے جو رواں سال مطلوبہ درجہ سے انتہائی کم ریکارڈ کیا گیا جس سے نہ صرف مجموعی پیداوار کم ہوئی ہے بلکہ اس سے اس کے معیار پر بھی اثر پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ مستقبل میں بھی اگر اسی طرح ژالہ باری ہوتی رہی تو کاشتکاروں کے پاس اس فصل کو چھوڑنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچے گا۔ لیاقت یوسفزئی نے مزید بتایا کہ رواں سال ژالہ باری میں ان کاشتکاروں کو کم نقصان پہنچا جنہوں نے فصل فروری کے بجائے مارچ میں کاشت کی تھی کیونکہ اپریل اور مئی میں ان کے تمباکو میں زیادہ پتے نہیں تھے تو ان کا نقصان بھی کم ہوا۔
زرعی ماہر اور پشاور زرعی یونیورسٹی کے ریٹائرڈ پروفیسر ڈاکٹر اکمل خان بھی لیاقت یوسفزئی کے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ درجہ حرارت کی زیادہ اونچ نیچ سے تمباکو میں نیکوٹین اور شوگر کا کیمیکل ری ایکشن صحیح طریقے سے انجام نہیں پاتا جس سے کوالٹی پر اثر پڑتا ہے۔
ڈاکٹر اکمل خان کہتے ہیں کہ رواں سال ژالہ باری سے بھی تمباکو کو کافی نقصان پہنچا ہے لیکن صوابی میں زیادہ ژالہ باری ان کے لئے کوئی انہونی نہیں ہے کیونکہ اس ضلع میں موسمیاتی تبدیلی کے یہ اثرات بہت پہلے سے ظاہر ہونا شروع ہو چکے ہیں۔ کشمیر میں بادلوں اور بارش کا جو مین مرکز ہے وہ آہستہ آہستہ صوابی اور آس پاس اضلاع میں شفٹ ہو رہا ہے۔ پچھلے چند سالوں کا ڈیٹا دیکھا جائے تو صوابی میں ژالہ باری اور فلیش فلڈ کے واقعات دیگر اضلاع کے مقابلے میں بہت زیادہ سامنے آئے ہیں۔
ڈاکٹر اکمل نے خدشہ ظاہر کیا کہ مستقبل میں صوابی میں جولائی اور اگست کی مون سون بارشوں کا سپیل اپریل، مئی حتیٰ کہ مارچ میں آنے کا خدشہ ہے جو تمباکو کی فصل کے لئے تباہ کن ثابت ہو گا۔ زرعی ماہر کاشتکاروں کو تمباکو کی فصل چند دن لیٹ کاشت کرنے کا مشورے دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کا ایک طریقہ ہو سکتا ہے۔
دوسری جانب پاکستان ٹوبیکو بورڈ کے ڈائریکٹر ریسرچ اور ڈیویلپمنٹ بلال انور کہتے ہیں کہ درجہ حرارت کی وجہ سے تمباکو کے معیار پر اثر اتنا زیادہ نہیں ہے جس سے فوری طور پر فرق پڑے، لیکن اگر ایسا لمبے عرصے تک چلا تو پھر مارکیٹنگ پر اثر پڑنے کا خدشہ ہو سکتا ہے۔
بلال انور ملک بالخصوص خیبر پختونخوا میں تمباکو کی پیداوار میں کمی کی وجہ موسمیاتی تبدیلی کو نہیں سمجھتے۔ وہ کہتے ہیں کہ تمباکو وہ واحد فصل ہے کہ جس کی جتنی ضرورت ہوتی ہے اتنی ہی اگائی جاتی ہے۔ یہاں دراصل مانگ میں کمی آئی ہے اس لئے پیداوار بھی کم کی گئی ہے۔
کتنا تمباکو اگایا جائے؟ ایک الگ کہانی
پاکستان ٹوبیکو بورڈ کے ڈپٹی ڈائریکٹر مارکیٹنگ ڈاکٹر عبدالصمد طاہر کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا میں 60 سے زیادہ کمپناں تمباکو کی صعنت سے وابستہ ہیں جن میں زیادہ تر تمباکو صرف باہر ممالک کو برآمد کرنے کے لئے خریدتی ہیں جبکہ تین بڑی کمپنیاں برآمدات کے ساتھ ساتھ یہاں سگریٹ سازی بھی کرتی ہیں۔ ان کمپنیوں میں پاکستان ٹوبیکو کمپنی، خیبر ٹوبیکو کمپنی اور فلپ مورس انٹرنیشنل شامل ہیں۔
یہ کمپنیاں سال کے آغاز میں پاکستان ٹوبیکو بورڈ سے اپنی سالانہ ضرورت کے مطابق کوٹہ لیتی ہیں پھر مارکیٹ سے اسی کوٹے کے مطابق ہی تمباکو اٹھا سکتی ہیں۔
تمباکو اگانے سے پہلے کاشت کاروں کو ٹوبیکو کمپنیوں سے باقاعدہ معاہدہ کرنا پڑتا ہے اور کمپنی ان سے جتنا تمباکو خریدنے کا ایگریمنٹ کرتی ہے کاشتکاروں کو اتنی ہی فصل اگانا پڑتی ہے۔ زیادہ اگانے کی صورت میں کسان کو خریدار نہیں ملتا۔ 2021 میں کاشت کاروں کے ساتھ یہی مسئلہ درپیش آیا تھا جب کاشت کاروں نے ایگریمنٹ سے اضافی فصل اگائی تو کمپنیوں اور پاکستان ٹوبیکو بورڈ نے 26 لاکھ کلوگرام کی فصل سرپلس قرار دے دی۔ اس سیزن میں مجموعی طور پر 118 ملین کلوگرام تمباکو پیدا ہوا تھا۔
بورڈ کے مارکیٹنگ آفسر کہتے ہیں کہ جب ضرورت سے زیادہ تمباکو پیدا ہوتا ہے تو کمپنیاں حکومت کی جانب سے مقرر کئے گئے کم سے کم ریٹ پر ہی خریداری کرتی ہیں جس سے کسانوں کو پہنچنے والا نفع بھی کم ہو جاتا ہے۔
تمباکو کے ریٹ کا تعین اور کاشت کاروں کی بائیکاٹ کی دھمکی
رواں سال تمباکو کے لئے کم سے کم 310 روپے فی کلو ریٹ مقرر کیا گیا ہے۔ تمباکو کا فی کلو ریٹ مقرر کرنے کے لئے پاکستان ٹوبیکو بورڈ وفاقی حکومت کو تجویز دیتا ہے جہاں سے پھر باقاعدہ نوٹیفیکیشن جاری کیا جاتا ہے۔ روان سال کمپنیوں نے نوٹیفیکشن کے مطابق 19 جون سے باقاعدہ خریداری شروع کر دی ہیں۔
بورڈ اہلکار عبدالصمد طاہر کہتے ہیں کہ ریٹ بورڈ، کمپنیوں اور کاشتکاروں پر مشتمل کمیٹی پورے طریقہ کار کے بعد طے کرتی ہے جس میں اخراجات اور موجودہ افراط زر کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ اخراجات کا سروے زمینداروں سے ہی کرایا جاتا ہے۔ بورڈ یہ یقینی بناتا ہے کہ کاشتکاروں کو اپنی محنت کا مناسب صلہ ملے اور صعنت بھی مستحکم رہے۔ بورڈ کے اہلکار نے وضاحت کی کہ 310 روپے مقرر کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ یہ فکسڈ ہے بلکہ یہ کم سے کم ریٹ ہو گا اور باقی کمپنیوں اور کاشت کاروں کے مابین مارکیٹنگ اور تمباکو کی کوالٹی پر منحصر ہے کہ خریداری زیادہ سے زیادہ کتنے ریٹ پر کی جا سکتی ہے۔
انہوں نے مزید وضاحت کی کہ تمباکو میں دراصل 16 گریڈز ہوتے ہیں جن میں میدانی علاقوں میں سب سے اوپر کے گریڈ کے لئے 329 روپے اور پہاڑی علاقوں (مانسہرہ، بونیر) کے لئے 372 روپے رکھا گیا ہے۔ جبکہ سے سب سے کمزور کوالٹی کے لئے 165 (میدانی) اور 208 (پہاڑی) ریٹ مقرر کیا گیا ہے۔ 310 روپے فی کلو اس کا اوسط ریٹ ہے۔
بورڈ اہلکار کے مطابق پچھلے سال تمباکو کا اوسط ریٹ 245 روپے فی کلو مقرر کیا گیا تھا جس میں رواں سال مہنگائی کے شرح کے تناسب سمیت دیگر اخراجات کو نظر میں رکھ کر 65 روپے فی کلو اضافہ کیا گیا ہے۔ تاہم کاشت کار اس اضافے کو ناکافی قرار دے رے ہیں۔ کاشت کار کہتے ہیں کہ قیمتوں کے تعین میں نہ تو مہنگائی کی اصل شرح دیکھی گئی ہے اور نہ ہی ژالہ باری سے فصل کو پہنچنے والے نقصانات کو نظر میں رکھا گیا ہے۔
کاشت کار اور پختونخوا کسان جرگہ کے سربراہ محمد علی کا کہنا ہے کہ کھاد، کیڑے مار ادویات، بھٹیوں کے لئے لکڑی اور مزدوروں کے بڑھتے ہوئے اخراجات سے ان کا فصل پر ہونے والا خرچ 100 فیصد سے زیادہ بڑھ چکا ہے۔ اس کے علاوہ رہی سہی کسر ژالہ باری نے پوری کر دی۔ ژالہ باری سے متاثرہ فصل کے پتوں کا وزن گھٹ گیا ہے۔ اعلان شدہ قیمت کے نتیجے میں کاشتکاروں کو فصل سے ملنے والا مالی فائدہ نہ ہونے کے برابر ہو گا اور ہم اس طرح کہہ سکیں گے کہ "نہ کچھ کھویا نہ پایا۔”
بورڈ کی جانب سے ریٹ کے تعین کے بعد تمباکو کاشتکاروں نے دھمکی دی تھی کہ اگر قیمت پر نظرثانی نہ کی گئی تو کاشت کار اپنی فصل فروخت کرنے سے انکار کر دیں گے۔ کاشتکار بورڈ سے کم از کم ریٹ 600 روپے فی کلو کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ تاہم بعد میں پاکستان ٹوبیکو کمپنی نے کاشتکاروں کو 425 اور فلپ مورس نے 400 روپے فی کلو تک ریٹ بڑھانے کا اعلان کیا تھا جس پر کاشتکاروں نے ان کو فروخت شروع کردی ہے۔ تاہم باقی ماندہ کمپنیوں کی جانب سے اس ضمن میں کوئی اعلان سامنے نہیں آیا ہے۔
کاشتکاروں کے مطالبات
تمباکو کاشتکاروں کی تنظیم ٹوبیکو گروورز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چئیرمین لیاقت یوسفزئی کہتے ہیں کہ تمباکو کی صعنت سے پچھلے سال وفاقی حکومت کو 160 روپے کے ٹیکسز جمع ہوئے۔ اب چونکہ ژالہ باری سے ان کاشت کاروں کو مالی نقصان پہنچا ہے تو حکومت کو چاہئے کہ ان میں سے کم از کم دس فیصد واپس ان کاشتکاروں پر لگائے جائیں تاکہ اگلے سال یہ لوگ پھر تمباکو کاشت کر سکیں۔
کاشتکاروں کی تنظیم کے سربراہ کا مزید کہنا تھا کہ تمباکو سے ہر سال صوبائی حکومت کو بھی ٹوبیکو ڈیویلپمنٹ سیس سے ڈیڑھ ارب روپے تک حاصل ہوتے ہیں لیکن ان کی جانب سے بھی ابھی تک ان کاشتکاروں کے ساتھ کوئی خاطرخواہ تعاون نہیں کیا گیا ہے۔ تاہم بورڈ کے ڈپٹی ڈائریکٹر مارکیٹنگ کا کہنا ہے کہ کاشتکار ژالہ باری سے ہونے والے نقصان کے سلسلے میں مبالغہ آرائی سے کام لے رہے ہیں۔ بورڈ نے اس ضمن میں ایک فیلڈ سروے کا اہتمام کیا ہے جس کے حتمی نتائج سامنے نہیں آئے تاہم اندازے کے مطابق ژالہ باری سے تمباکو کی فصل کو ایک سے لے کر ایک اعشاریہ پانچ فیصد تک ہی نقصان پہنچا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ژالہ باری متعدد بار ہوئی ہے لیکن ژالہ باری کا پیٹرن اس طرح ہوتا ہے کہ بہت ہی کم اور مخصوص علاقے میں ہوتی ہے۔ متعدد بار ژالہ باری کا مطلب یہ نہیں کہ ضلع میں تمباکو کی تمام فصل اس سے متاثر ہوئی ہے۔
صوابی ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر برائے بحالی و آبادکاری کے دفتر سے موصول ڈیٹا کے مطابق ابھی تک ان کے پاس 300 سے بھی کم لوگوں نے نقصانات کے ازالے کے لئے درخواستیں جمع کی ہیں جن میں 290 تک کاشتکاروں کی ہیں۔ خیبر پختونخوا کے قدرتی آفات سے نمٹنے والے ادارے پی ڈی ایم کے قانون کے مطابق تمباکو سمیت قدرتی آفات سے متاثر ہونے والی مختلف فصلوں کا معاوضہ 5 ہزار روپے فی ایکڑ کے حساب سے دیا جائے گا جبکہ فی کاشت کار کو مجموعی طور پر 50 ہزار روپے سے زیادہ نہیں دیے جا سکیں گے۔
تمباکو کاشتکار کمپنیوں سے بھی ان کے ساتھ مالی تعاون اور دئے گئے قرضے معاف کرانے کے بھی مطالبات کر رہے ہیں۔
تمباکو کی عالمی مارکیٹ میں پاکستان کا حصہ
پاکستان نے 2022 میں دنیا بھر کے چالیس سے زائد ممالک کو تمباکو برآمد کیا ہے اور عالمی سطح پر زیادہ تمباکو پیدا کرنے والے ممالک میں پاکستان کا آٹھواں نمبر ہے۔ دنیا بھر میں تمباکو کی سب سے زیادہ پیداوار چین اور دوسرے نمبر پر برازیل میں ہوتی ہے۔ پاکستان ٹوبیکو بورڈ کے مطابق پچھلے سال پاکستان نے تمباکو برآمدات سے 7 کروڑ 74 لاکھ ڈالر کمائے جبکہ مجموعی برامدات کا حجم 23 ملین کلوگرام تھا۔
رواں سال ملک کے اندر تمباکو ڈیمانڈ میں کمی کے مقابلے میں عالمی مارکیٹ میں پاکستانی تمباکو کی ڈیمانڈ 100 فیصد بڑھ چکی ہے۔ پاکستان ٹوبیکو بورڈ کے اہلکار کے مطابق رواں سال پاکستان باہر ممالک کو 46 ملین کلوگرام تمباکو برآمد کر رہا ہے۔
کاشت کار محمد علی کہتے ہیں کہ ایک کاٹن سگریٹ پر ٹوٹل 8 کلوگرام تمباکو لگتا ہے، ان 8 کلو کی خرید، تمام ٹیکسز، مینوفیکچرنگ اور مارکیٹنگ پر کمپنی کا 25 ہزار روپے تک خرچہ آتا ہے جبکہ وہ آگے اسے 50-60 ہزار روپے سے بھی زائد میں فروخت کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا”یعنی ہم سے 300 روپے میں لیا گیا تمباکو مارکیٹ میں 8 ہزار پر فروخت کیا جاتا ہے”۔ اسی طرح حکومت اور یہ کمپنیاں تمباکو برآمد کر کے بھی سالانہ اربوں روپے کماتی ہیں تاہم اس میں کاشت کاروں کا حصہ آٹے میں نمک کے برابر ہی ہوتا ہے۔ اگر حکومت اور کمپنیوں کی ظالمانہ پالیسیاں اور موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں قدرتی آفات اسی طرح جاری رہے تو صوابی سمیت پورے صوبے میں تمباکو کے کاشت کار اس فصل کو خیرباد کہہ دیں گے۔