لائف سٹائلماحولیات

مہمند میں موسمیاتی تبدیلی کی ٹکر، ‘یہاں کاشتکاری کا تصور ہی ختم ہوگیا’

سعید بادشاہ 

ضلع مہمند کے تحصیل حلیمزئی سلطان خیل سے تعلق رکھنے والے کاشتکار سوداگر خان کو موسمیاتی تبدیلی کی پہلی ٹکر سے اس وقت سامنا کرنا پڑا جب 2010 میں تیز بارشوں کے بعد ان کے ایک لاکھ 80 ہزار روپے کی بوریوں میں بند پیاز سیلاب بہا لے گئی۔

ٹی این این سے بات کرتے ہوئے سوداگر خان نے بتایا اس وقت انہیں پہلی بار معاشی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ سیلاب میں بہہ جانے والے پیاز کی وجہ سے ان کی خاندان کے 12 افراد بے روزگار ہوگئے جبکہ اس کے بعد ہر سال گرمی کی شدید میں اضافے اور کم بارشوں کے باعث ان کی کاشتکاری سکھڑنے لگی اور 2016 کے اختتام کے ساتھ ان کی کاشتکاری بھی ختم ہوگئی۔

سوداگر خان اپنے گھرانے کی کفالت کے لیے ضلع مہمند کے ہیڈ کواٹر غلنئی میں رضاکارانہ طور پر اپنے خدمات دے رہے ہیں۔ وہ شناختی کارڈ، پاسپورٹ اور دوسرے دستاویزات بنانے میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں جبکہ اس بدلے لوگ انہیں توڑی بہت رقم دیتے ہیں جس پر ان کا گزر بسر ہورہا ہے۔

یہ صرف سوداگر خان کی کہانی نہیں ہے بلکہ تحصیل حلیمزئی کے ان سینکڑوں کاشتکاروں کی روداد ہے جو موسمیاتی تبدیلی اور خشک سالی سے متاثر ہوکر بے روزگار ہوچکے ہیں۔

محکمہ زراعت مہمند کے ڈسٹرکٹ ڈائریکٹر آصف اقبال کے مطابق ہم گزشتہ 10 سال سے نوٹ کررہے ہیں کہ ضلع مہمند ان علاقوں میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلی سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں کیونکہ 15 سال پہلے تحصیل حلیمزئی میں بہترین کاشتکاری ہورہی تھی اور یہاں محکمہ زراعت کے نمائشی پودے اور پھلوں کے باغات کثیر تعداد میں لگائے جاتے تھے۔

ان کے بقول یہ باغات اچھی پیدوار کا ذریعہ تھا جبکہ اس کے ساتھ سبزیوں کی اعلیٰ اقسام کی کاشت سے کاشتکاروں کی خوب کمائی ہوتی تھی، آبی اور بارانی زمینوں پر کاشت کردہ گندم، جوار اور دیگر فصلوں میں مقامی لوگ کافی حد تک خود کفیل تھے مگر ایک دہائی کے دوران موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے پانی کی سطح تیزی سے گرتی چلی گئی جس سے زرعی زمینیں بنجر ہوکر زمیندار بری طرح متاثر ہوگئے۔

تحصیل حلیمزئی سے تعلق رکھنے والے مثل خان آج سے دس سال پہلے اپنی زمین پر مختلف اقسام کی سبزیاں کاشت کرکے مقامی بازاروں میں بیجتے تھے لیکن اب وہ خود ایک دکان میں سبزی فروخت کررہے ہیں جس کے لیے وہ پشاور اور چارسدہ کے سبزی منڈیوں کا رخ کرتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ جب وہ اپنی زمینوں پر سبزیاں کاشت کرتے تھے تو اس وقت ان کا گزر بسر اچھا ہورہا تھا اور وہ اکثر اپنے علاقے کے دیگر زمینداروں سے سبزیاں خرید کر پشاور اور پنجاب سپلائی کرتے تھے جس سے ان کا منافع بخش روزگار ہوتا تھا لیکن اب حالت بدل گئے ہیں اور وہ بمشکل اپنی ضروریات پوری کرتے ہیں۔

انجمن زمینداران مہمند کے صدر ملک گلاب شیر مہمند کا خیال ہے کہ تحصیل حلیمزئی کے گنداؤ علاقے میں انڈر گراؤنڈ واٹر ٹیبل نیچے جانے سے وہاں کاشتکاری کا تصور ہی ختم ہوگیا ہے۔

ایک سروے کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ضلع مہمند سے بارشوں کے پانی کا 64 فی صد پانی تیز سیلابوں کی صورت میں برساتی نالوں کے راستے تیزی سے نکل جاتا ہے جو زیر زمین پانی کی سطح کو اوپر لانے میں کوئی کردار ادا نہیں کرتا بلکہ الٹا زمینی کٹاؤ اور فصلوں کو نقصان کا باعث بنتا ہے۔

انہوں نے تجویز دیتے ہوئے کہا کہ جن علاقوں میں واٹر ٹیبل نیچے چلا گیا ہے وہاں اب بھی جگہ جگہ سمال ڈیمز،چک ڈیمز اور پانڈ ڈیمز بنائے جائے تو حالت بہتر ہوسکتے ہیں۔

پشاور یونیورسٹی سے ایگریکلچر واٹر مینجمنٹ میں پی ایچ ڈی کرنے والے ڈاکٹر جان محمد کے مطابق ضلع مہمند میں  اکانومی کا زیادہ انحصار ایگر یکلچر پر تھا مگر موسمیاتی تبدیلی نے اس معاشی ریڑھ کی ہڈی کو متاثر کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 2010 میں ورلڈ بینک نے ایک سروے کیا تھا جس کے مطابق تحصیل حلیمزئی میں زیر زمین پانی کی سطح 3 سے 4 فٹ سالانہ نیچے جارہی تھی، 13 سال پہلے جب مہمند میں بارشیں معمول کے مطابق تھی اور سردیوں میں بارشوں کا سلسلہ طویل ہوتا تھا تو زیر زمین پانی کی سٹوریج بڑھ جاتا تھا۔ ان کے بقول زیر زمین پانی کی سٹوریج میں کمی کی بڑی وجہ کنکریٹ کی آبادی، گلیات پختگی اور بلڈنگز سمجھا جاتا ہے کیونکہ ان سے مٹی کی سطح چھپ رہی ہے اور زمین بہت کم مقدار میں بارشوں کا پانی جذب کرتا ہے۔

ڈاکٹر جان محمد نے مزید بتایا کہ تحصیل حلیمزئی میں جگہ جگہ ڈگ ویلز، ٹیوب ویلز اور پھر اس پر سولر پینلز لگائے گئے ہیں جس سے دھڑا دھڑ پانی نکال کر زیر زمین ذخیرہ ختم ہونے لگا ہے، اب بھی لوگ اس بات کو نہیں سمجھ رہے اور جس کا بس چلے وہ اپنی مرضی سے ٹیوب ویل کی کھدائی کرکے ضرورت سے زیادہ پانی نکالتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کو ہم نے ملکر کم کرنا ہے جس کے لیے ٹیوب ویلز کی کنٹرول کھدائی اور ایریگیشن پالیسی اپنانی چاہئے کیونکہ ضلع مہمند کے کاشتکار اب بھی وہی پرانے طریقے سے آپباشی کررہے ہیں جس کے 50 فیصد پانی فصل کو ملتا ہے جبکہ 50 فیصد ضائع ہوجاتا ہے، موجودہ حالات کا تقاضا یہ ہے کہ زمیندار ہائی ایفی شینسی ایریگیشن سسٹم لگائے، ڈرپنگ ایریگیشن سے سبزیاں اگائے اور باغات لگاکر جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھائے جس کی بدولت کم پانی میں زیادہ فصل سیراب ہوسکتا ہے۔

Show More

Salman

سلمان یوسفزئی ایک ملٹی میڈیا جرنلسٹ ہے اور گزشتہ سات سالوں سے پشاور میں قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں کے ساتھ مختلف موضوعات پر کام کررہے ہیں۔

متعلقہ پوسٹس

Back to top button