بلاگزلائف سٹائل

”اگر مجھے جواب نہیں دیا تو تمھارے باپ کو یہ تصاویر بھیج دوں گی”

 

مہرین خالد

کہتے ہیں کہ مرد عورت کا محافظ ہوتا ہے پھر اس محافظ کو ہم نے اپنے لیے خوف و ڈر کا علمبردار کیوں بنایا ہے؟
کچھ روز پہلے اپنی بہن کے ہمراہ پڑوسی کے گھر گئی جو کہ مشترکہ خاندان ہے، کچھ دیر گپ شپ لگانے کے بعد بچوں کے سوئے ہوئے شرارتوں کو ہوش آیا تو پلک جھپکتے ہی پورے گھر کو یوں سر پہ اٹھایا کہ شیطان بھی پناہ مانگے۔
دادی کے بار بار منع کرنے کے باوجود بچے اپنی شرارتوں میں مگن تھے کہ اچانک دادی نے اپنے سب سے چھوٹے بیٹے کو پکارتے ہوئے آواز لگائی ” ماجد جلدی آو یہ بچے تو ہماری ایک بھی سننے کو تیار نہیں ” یہ سنتے ہی بچے یوں منظر عام سے غائب ہوئے جیسے کبھی منظر میں ہو ہی نہیں۔ یہ کہنے کے بعد دادی بتانے لگی کہ یہ بچے ہم میں سے کسی کی نہیں سنتے لیکن میرے اس چھوٹے بیٹے سے ڈرتے ہیں۔ یہ سب دیکھ کر میری بھی حیرانگی دنگ رہ گئی کہ جہاں چار، پانچ عورتوں کے بارہا کہنے کے باوجود بچے سدھرنے کو تیار نہ تھے وہی ان کے چچا جن کی عمر تقریباً 16 یا 17 سال ہوگی، کو دیکھ کر اپنی سب شرارتیں بھول بیٹھے۔

یہ سب دیکھ کر مجھے بھی اپنی بچپن کی یاد آئی کہ پڑھائی پر توجہ نہ دیتے یا وقت پر گھر نہ آتے یا پھر شرارتیں کرتیں تو امی ہمیں ابو کے نام پہ ڈراتی کہ ابو کو آجانے دو سب بتاؤں گی لیکن شاید امی بھی اس بات سے بے خبر تھی کہ ہمیں ابو کے بجائے امی سے ڈر لگتا تھا۔

لیکن یہ خوف و ڈر صرف ہمارے بچپن کا حصہ نہیں ہوتے بلکہ ہماری عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی پھلتے پھولتے ہیں۔
بد قسمتی سے ہم اس معاشرے کا حصہ ہیں جہاں بچپن سے ہمارے ذہن میں اس بات کا نقشہ تو کھینچا جاتا ہے کہ مرد یعنی ابو اور بھائی تمھارے محافظ ہیں لیکن عملی زندگی میں ان کے کردار کو کسی بدمعاشی سے کم نہیں دکھایا جاتا۔

افسوس کہ ہم آج بھی خصوصاً لڑکیوں کو مرد کے نام سے ڈراتے ہیں۔ کچھ مہینے پہلے کی بات ہے جب ایک رانگ نمبر سے واٹس ایپ پر ایک خاتون مجھے میسیجز کئے۔ خاتون میسج میں اپنے شوہر کا آدھا ادھورا نام لے کر میرے لیے دھمکی آمیز پیغامات چھوڑتیں۔ میں اس نام اور میسیجز کو دیکھتے ہوئے سمجھ نہیں پائی کہ یہ کون ہو سکتی ہے خیر جب کئی روز تک جواب نہیں ملا تو خاتون آپے سے باہر آگئی کہنے لگی ویلنٹائن ڈے پر تمھارے بوائے فرینڈ کے ساتھ جو واٹس ایپ اسٹیٹس پر تصویریں تھیں اس کا اسکرین شاٹ میں نے شوہر کے موبائل سے لیا ہے اور اگر جواب نہیں دیا تو تمھارے باپ کو یہ تصاویر بھیج دوں گی۔

اب بتاؤ میرے شوہر کا نمبر کہاں سے آیا تمھارے پاس؟ کیا لگتا ہے تمھارا؟ یہ سب دیکھ کر تو میں سمجھ گئی کہ خاتون کون ہے لیکن میرے بوائے فرینڈ والی بات دماغ کے پرزوں میں نہیں گھس رہی تھی دماغ پر زور لگانے کے بعد پتہ چلا کہ خاتون جس کو میرا بوائے فرینڈ کہہ رہی وہ ہماری مینٹور سبین آغا ہیں جن کے ساتھ ٹریننگ سیشن میں کچھ تصاویر بنائی تھی جو ویلنٹائن ڈے پر واٹس ایپ اسٹیٹس پر لگائیں تھیں اور خاتون اسے میرا بوائے فرینڈ سمجھ بیٹھی تھی۔

خیر خاتون کا بلڈ پریشر جگہ پر لانے کے لیے اسے بتایا کہ آپکے شوہر کا نمبر میرے پاس کہاں سے آیا یا میرے کیا لگتے ہیں اس کا جواب اپنے ہی شوہر سے طلب کیجئیے گا اور رہی بات تصویروں کی تو آپ اپنے شوہر سے عدم تحفظ کا شکار ہوں گی لیکن مجھے ابو کی طرف سے بھر پور تحفظ حاصل ہے کیونکہ مجھے ابو نے ڈرانا نہیں غرانہ سکھایا ہے تو لہذا یہ تصویروں کی دھمکی اور نامناسب گفتگو آگے سے سوچ سمجھ کے کرئیے گا نہیں تو اس دھمکی خیز باتوں پہ قانونی کارروائی بھی کرسکتی ہوں جس کے بعد خاتون کا کوئی میسج نہیں آیا۔

یہ ساری بات میرے لیے بہت نئی تھی لیکن جوانی کے اس حصے میں میرے دل میں کہی نہ کہی ابو کے نام کا جو بلا وجہ ڈر تھا وہ ختم کردیا۔ لیکن میرے دماغ کی سوئی ابھی تک ان لڑکیوں کے خوف پہ اٹکی رہی جنھیں روزمرہ زندگی میں اس طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میری بہت سی سہلیاں کالج اور یونیورسٹی میں بتاتی تھیں کا فلاں لڑکا مجھے چھیڑتا ہے یا نمبر بدل بدل کے تنگ کرتا ہے لیکن صرف اسی ایک ہی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے چپ ہو جاتیں کہ گھر میں ابو یا بھائی کو پتہ چلا تو ہماری پڑھائی چھڑوا دیں گے۔
ان سب باتوں سے ایک نتیجہ تو اخذ کیا میں نے کہ مرد کے نام پہ ہمیشہ اسی عورت کو ڈرایا جاتا ہے جس کے نفسیات پر مرد حاوی ہوتا ہے۔

لفظ ” محافظ ” یعنی حفاظت کرنے والا” کے معنی کو اگر ہم اسی شکل میں معاشرے میں متعارف کروائیں تو شاید یہ خوف ڈر کی صورت میں نہیں بلکہ مضبوطی کی صورت میں باہر آئے گا اور خوفزدہ کرنے کے لیے مرد کا جو ڈراؤنا روپ ہمیں دکھایا جاتا ہے. اس کا حل تب ہی ممکن ہے جب ہمیں اپنے ہی گھر کے مرد اس خوف سے لڑنا سیکھا کر اسے ہم پر حاوی نہ ہونے دیں گے.

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button