عوام کی آوازکالم

استحکام پاکستان پارٹی، ایک نیا سراب

ابراہیم خان

یہ بات تو طے ہے کہ پاکستان میں سول ہو یا ملٹری سٹیبلشمنٹ کسی نے بھی ماضی سے سبق سیکھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ اگر ایسا ہوتا تو ملک میں جس طمطراق سے ماضی کی آزمودہ غلطیوں کو ایک بار پھر زندہ کیا جارہا ہے وہ منظر سامنے نہ ہوتے۔ وہ فلم جو آج چل اور چلائی جارہی ہے اس کا انجام ماضی کے مقابلے میں اس بار زیادہ بھیانک ہوگا۔ اس پیش بینی کے یوں تو کئی محرکات ہیں لیکن ایک بہت عام فہم مگر واضح محرک یہ ہے کہ اس وقت پورا ملک عدم استحکام کام کی تصویر بنا ہوا ہے اور اس منظرنامے میں طاقتور قوتوں نے استحکام پاکستان پارٹی کھڑی کرنے کا بیڑہ اٹھا لیا ہے۔

پاکستان میں اگر دیکھا جائے تو حقیقی معنوں میں پاور پالیٹکس یا طاقت کی سیاست ہمیشہ رائج رہی ہے۔ طاقت کی سیاست کرنے والے ضروری نہیں کہ ایسا فیصلہ کریں جو عقل ودانش سے مطابقت رکھتا ہو۔ اس کی بڑی مثال ذوالفقار علی بھٹو جیسے کرشمہ ساز شخصیت کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی سے مولانا کوثر نیازی کی پارٹی کشید کی گئی تو اس وقت بھی اور آج بھی تاریخ کے دھارے کو اٹھا کر دیکھیں تو نئی "تخلیق کردہ” جماعت اور حقیقی جماعت کی لیڈرشپ کا کوئی تقابل نہیں۔ کل پاکستان پیپلز پارٹی سے مولانا کوثر نیازی کی پارٹی کشید کی گئی لیکن آج مولانا تاریخ کے اوراق کی گرد تلے دب چکے ہیں جبکہ بھٹو آج بھی نہ صرف زندہ ہے بلکہ ان کی آتما آج بھی انسانوں میں حلول ہوکر جنتا کو چنوتی دے رہی کہ تم کتنے بھٹو مارو گے ہر گھر سے بھٹو نکلے گا۔

سابق صدر جنرل ضیاء الحق مرحوم کو نہ جانے کوثر نیازی میں وہ کون سی "خوبیاں” دکھائی دی تھیں کہ وہ انہیں ذوالفقار علی بھٹو کا متبادل دکھائی دینے لگا؟ کہاں ذوالفقار علی بھٹو اور کہاں کوثر نیازی جیسا ایک عام سیاستدان جس کو جماعت اسلامی سے پیپلز پارٹی میں آنے پر مذہبی حلقوں نے اپنا ماننے سے انکار کردیا تو دوسری طرف بعض مخصوص عادتوں کے باوجود ترقی پسند حلقے انہیں ترقی پسند ماننے کے لیے تیار نہ تھے۔ پھر بھی یہ ناکام تجربہ کیا گیا۔ کل بھی ایک مطلق العنان صدر کا یہ المیہ تھا کہ وہ نئے گھوڑے کی اہلیت کا ادراک نہ کرسکے، آج کے فیصلہ ساز بھی جنرل ضیاء الحق کے دور کی طرح وہی غلطی دوہرا رہے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کو تو انہوں نے ایسا غتر بود کیا کہ تحریک انصاف میں تو کیا مملکت خداداد پاکستان میں جمہوریت کا خواب دیکھنے والے بھی اب چین سے بیٹھ گئے ہیں۔

اس پارٹی کے سربراہ عمران خان ہیں۔ اب ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس جماعت سے ایک ایسی جماعت کشید کی جاتی جو ہر مثبت لحاظ سے پاکستان تحریک انصاف سے بہتر ہوتی تو یہ ایک مثالی تبدیلی ہوتی، لیکن چلئے اگر مثالی تبدیلی ممکن نہیں تھی تو کم از کم اس کنگز پارٹی کی قیادت ہی ایسے شخص کو دے دی جاتی جو عمران خان سے بہتر ہوتا اور اگر بہتر نہیں تو کم از کم ان کے ہم پلہ ہوتا، مگر شومئی قسمت کہ یہ تاریخ اپنے آپ کو دوہرا رہی ہے فرق اتنا ہے کہ کل کو اس تبدیلی کے براہ راست انچارج جنرل ضیاء الحق مرحوم تھے جبکہ آج فرنٹ پر شہباز شریف شریف اینڈ کمپنی ہے۔ یہ بھی یقین کرلیجئے کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ جب شہباز شریف اور ان کے ساتھی چیخ چیخ کر کہیں گے کہ پاکستان تحریک انصاف کو ہم نے نہیں توڑا تھا۔

پاکستان تحریک انصاف کی قسمت کا فیصلہ ہوچکا ہے اور عمران خان کی اکڑ 9 مئی کے بعد فوج کی پکڑ میں آ چکی ہے۔عمران خان چونکہ ملکی ہیرو تھے اور یہ ٹائٹل ان سے آگے بھی کوئی نہیں چھین سکتا چاہے یہ پابندی لگا دی جائے کہ ٹی وی چینلز پر ان کا نام تک لیا جائے تب بھی عمران خان کو بھلایا نہیں جاسکتا۔ اس حقیقت کے باوجود یہ ضرور ہے کہ عمران خان اب بدترین تنہائی کی طرف جارہے ہیں۔ اب نہ ان کی سب سے بڑی ضد وسیم اکرم پلس کہیں دکھائی دے رہی ہے اور نہ ان کے حق میں چیختی چنگھاڑتی آپا فردوس، فواد چوہدری، وغیرہ وغیرہ یہ تمام گوہر نایاب اب اسی جہانگیر ترین کو پیارے ہوگئے ہیں جو سپریم کورٹ کے فیصلے کی وجہ سے ( تاحال) نہ تو کوئی سیاسی پارٹی بنا سکتے ہیں اور اس کی سربراہی کرسکتے ہیں۔

ہاں اس بات کے امکانات روشن ہیں کہ کسی بھی کلیننگ مشین میں دھل کر وہ صاف ستھرے ہوسکتے ہیں۔ اس ممکنہ مرحلے کا انتظار کیجئے کہ ابھی راستے میں گھات لگائے بہت سے "گھاگ کھلاڑی” موجود ہیں۔ یہاں برسبیل تذکرہ یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ اب تک جہانگیر ترین کی وجہ شہرت اپنے جہاز میں تگڑی سواریاں لانے کی ہے۔ انہیں اس بات پر تو ملکہ حاصل ہے کہ حکومتی نمبر کس طرح پورا کرنا ہے لیکن کیا اگر واقعی اس کنگز پارٹی کو کنگ شپ دینے کا فیصلہ ہوگیا تو جہانگیر ترین کا سٹیٹس کیا ہوگا؟ اور کیا وہ امیدوں پر بھی پورا اتر پائیں گے نہیں؟

جہانگیر ترین کو مستقبل میں اگر واقعی کوئی ذمہ داری ملی تو وہ اس پائے کی نہیں ہوگی کہ جس سے وہ وزارت عظمیٰ تک پہنچ سکیں۔ اس کی دو وجوہات ہیں جن میں پہلی وزارت عظمیٰ کے دوسرے امیدوار ہیں جس پر اگلی نشست میں تفصیلی بات ہوگی۔ دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف سے استحکام پاکستان پارٹی میں جو” درآمد” ہوئی ہے، ان کے لٹکے ہوئے چہرے ان کی استحکام کو مستحکم کرنے کی کہانی بیان کررہا ہے۔ ایسے بے دل لوگوں کے سہارے اگر جہانگیر ترین کوئی ضلعی نظامت حاصل کرنے کا قصد کریں تو ان کی کامیابی کا تھوڑا بہت امکان ہو گا لیکن وزارت عظمیٰ کا کوئی چانس نہیں۔ ہاں اگر "ڈاڈے” کوئی چھو منتر کردیں تو اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا، لیکن ان امپورٹڈ سیاستدانوں کو لانے کا کوئی فائدہ نہیں۔

جہانگیر ترین کی پارٹی کے اس کنونشن میں کنگز پارٹی بنانے کا زیادہ تر منجن تو موجود ہے لیکن ان میں سے بیشتر کے لٹکے ہوئے چہرے کنگز پارٹی کے تاثر کو ڈاؤن کررہے تھے۔ خاص کر تحریک انصاف سے آنے والوں کو دیکھ کر لگتا تھا کہ ان کو کنونشن میں زبردستی لایا گیا ہے یا یہ شرمندہ ہیں۔ زیادہ تر کے چہرے اترے ہوئے تھے خاص طور پر فواد چوہدری اور فیاض چوہان جو ہمیشہ پر اعتماد دکھائی دیتے ہیں، وہ بھی ایسے حواس باختہ دکھائی دئے۔ یہ دونوں خاص طور پر فواد چودھری تو یوں منہ چھپارہے تھے جیسے خدانخواستہ کہیں منہ کالا کروانے آگئے ہوں۔

استحکام پاکستان پارٹی کی لانچنگ پریس کانفرنس ایسے نہیں تھی جیسے ایک نئی سیاسی جماعت پوری تیاری سے خود کو متعارف کراتی ہے تاکہ پہلا تاثر بہترین ظاہر کیا جائے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ سب جلد بازی میں ہوا اور متفقہ فیصلہ نہیں لگتا کیونکہ علی زیدی جہانگیر ترین سے ملاقات کے باوجود عمران اسماعیل کے ساتھ پریس کانفرنس میں شریک نہیں ہوئے۔ جہانگیر ترین اور علیم خان کے پاس جانے یا ان سے بات کرنے میں بھی کسی کی دلچسپی دکھائی نہیں دی۔ صرف علیم خان، شعیب صدیقی اور عون چوہدری ہی متحرک دکھائی دئے۔ یہاں تک کہ اس کنونشن میں پارٹی پرچم تک نہیں لہرایا گیا اور بعد میں میڈیا کو جاری کر دیا گیا۔ اب بظاہر تو سیاسی قد کاٹھ میں جہانگیر ترین کا عمران خان سے کوئی مقابلہ نہیں اس لئے جہانگیر ترین کو ان محرکات پر زور دینا جو ان کا پلس پوائنٹ ہے اور ان کی قوت سرمایہ داری ہے جس کو بروئے کار لانا ہوگا۔

Show More

Salman

سلمان یوسفزئی ایک ملٹی میڈیا جرنلسٹ ہے اور گزشتہ سات سالوں سے پشاور میں قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں کے ساتھ مختلف موضوعات پر کام کررہے ہیں۔

متعلقہ پوسٹس

Back to top button