بلاگزلائف سٹائل

سگریٹ پینے سے عورت کے پھیپھڑے خراب ہوتے ہیں یا کردار؟

 

تحریر : رعناز

گزشتہ دنوں میں اپنی بہن کے ساتھ بیٹھ کر ٹی وی پر ایک ڈرامہ دیکھ رہی تھی۔ اس ڈرامے میں مجھے دو سہیلیاں ایک ریسٹورینٹ میں بیٹھی ہوئی دکھائی دیں۔ ان دونوں سہیلیوں میں سے ایک سگریٹ پی رہی تھی۔ سگریٹ پیتے ہوئے اس نے ایک جملہ بولا کہ اگر مرد سگریٹ پیے تو وہ شوق اور فیشن کہلاتا ہے اور اگر عورت پیے تو وہ بدکردار اور بے حیا جیسے الفاظ سے نوازیں جاتی ہے۔ اس نے مجھے سوچنے پر مجبور کیا کہ آخر مرد اور عورت میں یہ فرق کیوں؟ مرد کے لیے سگریٹ پینا اگر فیشن ہے تو وہی سگریٹ عورت کے لئے بے حیائی کیوں ؟مجھے تو یہ سمجھ نہیں آتی کہ عورت کے سگریٹ پینے سے کسی مرد کا آخر بگڑتا کیا ہے؟

ہمارے معاشرے میں ہمیشہ مرد اور عورت میں تضاد ہی رہا ہے۔ خواہ وہ جو بھی معاملہ ہو یا جو بھی کام ہو ہمیشہ اس میں مرد کی ہی چلتی ہے اور عورت کو اسی کا کہا ماننا پڑتا ہے۔ مطلب ہمارے معاشرے میں مردوں کی ہی اجارہ داری ہے جیسا کہ اب سگریٹ پینے کے معاملے کو ہی دیکھے جو کہ مرد کے لئے فیشن اور عورت کے لئے ممنوع ہے۔ وراثت   میں حصہ ہو یا کاروبار اور گھر میں سب کے ملکیتی حقوق مرد کے پاس ہی ہوا کرتے ہیں۔

اگر عورت اپنے دوستوں کے ساتھ باہر جا رہی ہیں گھوم  پھر رہی ہے تو اسے ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس کے برعکس اگر مرد یہ سارے کام کرے اس کو کوئی کچھ نہیں کہے گا۔ آخر یہ کہاں کا انصاف ہے؟ ہر ایک چیز پر مردوں کا راج ہے۔ کہاں جانا ہے کتنی دیر بیٹھنا ہے ،کتنے دنوں بعد گھر سے باہر جانا ہے ،کپڑے کیسے پہننے ہیں، منہ کھول کے باہر جانا ہے یا برقعے میں قیدی بن کر جانا ہے۔ ان ساری باتوں کا فیصلہ مرد کرتا ہے۔ عورت کی اپنی ذات یا اس کی رائے تو کہیں پر کھو گئی ہے۔

ہمارے معاشرے میں تو عورت کا سگریٹ پینا جیسے قیامت کے آنے کے مترادف ہوتا ہے۔ اگر مرد سگریٹ کا دھواں اڑ ائے تو یہ اس کی شان ہے اور اگر عورت کرے تو اس پر بے حیائی اور بدکرداری کا ایک بڑا ٹھپہ لگ جاتا ہے ۔مرد ذات خود نشئ ہوکر بھی عورت کو سگریٹ پیتا دیکھ کر ہمیشہ بے چین ہی رہتے ہیں۔ یہ اچھی منافقت ہے۔ اگر عورت کسی کے سامنے سگریٹ پیے تو وہ عورت پھر عورت کہلانے کے قابل نہیں رہتی۔ آخر کیوں اس نے کیا جرم کیا ہوتا ہے ؟ اگر سگریٹ پینا  اتنا ہی بڑا جرم ہے تو پھر مردبھی برابر کا جرم کر رہے ہیں۔

اگر ایک مرد ایک دوکان پر جائے سگریٹ خریدنے کے لئے تو دکاندار پیسے لے کر سگریٹ پکڑا دیتا ہے۔ اس کے برعکس اگر ایک عورت دکان پر جائے تو پہلے تو وہ دکاندار اس عورت کو سر تا پیر غور سے دیکھے گا ۔باقاعدہ اس کا سی ٹی سکین کیا جائے گا۔ اس کے دل اور دماغ میں یہی چلے گا کہ یہ عورت تو اچھے کردار کی مالک نہیں ہے اس لیے تو سگریٹ لینے آئی ہے۔ ان ساری چیزوں کے بعد تب کہیں جا کر وہ دکاندار اس عورت کو سگریٹ دے گا۔

میں نے خود ایسی کئی لڑکیوں اور عورتوں کو دیکھا ہے جو سگریٹ پیتی ہے لیکن کسی گناہ کی طرح ساری دنیا سے چپ کر کیونکہ ان کو پتہ ہوتا ہے کہ اگر کسی ایک مرد کو بھی اس بات کے بارے میں پتہ چلا تو وہ اس کے کردار کی دھجیاں اڑانے میں دیر نہیں کرے گا ۔ میں کہتی ہوں کہ ایک عورت کو صرف اتنا حق تو دینا چاہیے کہ وہ کم از کم یہ تو کہے کہ” میری زندگی میری مرضی”۔

ایک عورت کے سگریٹ پینے پر جتنا واویلا مچایا جاتا ہے جتنا اس کے کردار کو داغدار بنایا جاتا ہے تو اتنا مرد کی سگریٹ پینے پر کیوں نہیں کیا جاتا ؟مردوں کے لیے سارے جرائم جائز اور عورت کے لئے گھٹن ہی گھٹن کیوں؟

لہذا ہمیں یہ صنفی امتیاز ختم کردینا چاہیے جو کام مرد کھلے عام اور فخر سے کر سکتا ہے وہی عورت بھی کر سکتی ہے۔ مرد ذات کو عورت کے کردار پر کسی بھی قسم کی انگلی نہیں اٹھانی چاہیے۔ سگریٹ پینے کا تعلق کردار سے بالکل بھی نہیں ہے۔ ادھر میں صرف ایک بات کہنا چاہتی ہوں کے سگریٹ جیسے ہی مرد کے پھیپھڑوں کو خراب کرتی ہے اسی طرح عورت کے بھی صرف پھیپھڑوں کو خراب کرتی ہے کردار کو بالکل بھی نہیں۔ آئیے اس صنفی امتیاز کی زنجیروں کو توڑ تے ہوئے ایک ایسے معاشرے کو پروان چڑھاتے ہیں جو کہ ہر فرد کے لئے یکساں ہو پھر چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔

رعناز ٹیچر اور کپس کا لج مردان کی ایگزام  کنٹرولر  ہیں اور صنفی اور سماجی مسا ئل پر بلاگنگ بھی کرتی ہیں۔ 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button