بلاگزلائف سٹائل

"خاک کی قید میں جانے والے بھلا کب لوٹ کر آتے ہیں”

شمائلہ آفریدی
"ڈز چی پے کی لاس دی مات شہ
موت خو دی شہ پہ سنگلو کی لاسونہ”

(تمہارا وہ ہاتھ ٹوٹے جس سے تم فائر کرتے ہو، اور تمہارے دونوں بازوؤں کی کہنیاں بھی ٹوٹ جائیں)
"دی ظالیمانو کور دی وران شی
چی پہ کوثو کوثو کی نہ کوی مرگونہ”
(ظالموں کے گھر برباد ہوں تاکہ گلی گلی قتل عام نہ کرتے پھریں)

"مرگوٹی داسی زوانان یووڑو
ڈیرہ خیالہ بہ یی کاگہ وڑو ورمیگونہ”
(موت ایسے جوانوں کو کھا گئی جو جوانی کے نشے میں گردن اکڑا کر چلا کرتے تھے)

"مرگیہ خپل کورگے دی وران شہ
خپل خو دی نشتہ ورانوی پردی کورونہ”
(اے موت! تمھارا خانہ خراب ہو، خود اپنا گھر تو تمہارا ہے نہیں دوسروں کے گھر اجاڑ رہے ہو)
"کہ تور لحد تہ نری لیار وے
ما خو بہ خپل روکی تہ تل وڑلے سیزونہ”
(لحد تک اگر کوئی تنگ سا راستہ ہوتا میں روز اپنے لاڈلے کیلئے چیزیں لے کر جاتی)
"خپلو بچو تہ دی روشہ
کہ زہ خو دی زڑہ غویخی ویرکم تا یادوینہ”
(اپنے بچوں کے پاس چلے آؤ، میں اگر ان کو اپنے دل کے ٹکڑے بھی کھلا کر دوں یہ تمہیں ہی یاد کرتے رہتے ہیں)
"چی مسافر شی بیا بہ راشی
دی تورو خارو بندیوان کلہ رازینہ”
(کوئی مسافر بن جائے تو واپس آ جاتا ہے، لیکن مٹی/خاک کی قید میں جانے والے بھلا کب لوٹ کر آتے ہیں)

دل چیرنے والے یہ الفاظ میں نے اس وقت سنے جب گاؤں میں ایک نوجوان کی موت پر اس کے گھر گئی۔ رونا دھونا تو بہت تھا لیکن کچھ بزرگ خواتین نوحہ کر رہی تھیں۔ اور سب خاموشی سے سن رہے تھے لیکن ایک آدھ مقام پر سب کی چیخیں بھی نکل جاتی تھیں خصوصاً میت والے گھر کی خواتین دھاڑیں مار مار کر رونا شروع ہو جاتیں۔ میں بھی سننے کیلئے کچھ دیر رک گئی۔ ان الفاظ میں، ان کے لہجے اور انداز میں درد ایسا تھا بے اختیار میری آنکھوں سے بھی آنسو جاری ہو گئے۔
ان خواتین کے بیچوں بیچ، ایک بڑی عمر کی خاتون، بڑی بی کا انداز سب سے الگ، اور بڑا دلگداز تھا۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ ان کے اپنے جوان بیٹے کی کچھ عرصہ قبل موت ہوئی تھی۔ اس کے بعد سے جہاں کہیں میت ہوتی ہے تو بڑی بی کے دل کے زخم بھی تازہ ہو جاتے ہیں۔

ویسے تو عموماً اسے ماتم ہی کہا جاتا ہے؛ نوحہ یا مرثیہ خوانی بھی اسے کہتے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں اسے "ٹکی” (ٹکی ویسے الفاظ کو کہتے ہیں لیکن یہاں اس سے مراد یہی نوحہ یا مرثیہ خوانی ہے)۔ پرانے وقتوں میں یہ چیز ہمارے پشتون معاشرے میں بالکل عام تھی، کہا جاتا تھا: ”مڑے پہ غم خہ خکاری او وادہ پہ سندرو” مطلب یہ کہ رونا دھونا میت پے اور شادی بیاہ پے گانا بجانا اچھا لگتا ہے۔ اب تعلیم خصوصاً فہمِ دین عام ہونے کی وجہ سے رفتہ رفتہ یہ ریت بھی مٹتی جا رہی ہے۔ لیکن آج بھی بہت سارے علاقوں میں ایسی خواتین پائی جاتی ہیں کہ میت پے جنہیں سن کر کلیجہ منہ کو آ جاتا ہے، کہ جو دل کو پارہ پارہ کر کے رکھ دیتی ہیں۔

بی اماں، جو اسی وجہ سے گاوں بھر میں مشہور ہیں، نے بتایا کہ ماضی میں ہر قبیلے میں کوئی ناکوئی ایک بی اماں ان "ٹکو/ٹکی” کی وجہ سے جانی پہچانی جاتی تھی۔ ماضی میں ایسی خواتین جو میت پر نوحہ کرتی تھیں، ان کی بڑی قدر ہوتی ہوتی تھی، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوا کرتی تھی کہ وہ خود بھی زخم خوردہ ہواکرتی تھیں۔ ہماری یہ بی ماں، جیسا کہ پہلے بتایا بھی، ایک زخم خوردہ خاتون ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ محنت مزدوری کی غرض سے دیار غیر میں مقیم ان کے نوجوان بیٹے کی شادی تھی، تمام تیاریاں مکمل ہو گئی تھیں؛ "لیکن ملک واپسی سے چند روز پہلے اس کا ایکسیڈنٹ ہوا جس میں وہ جان کی بازی ہار گیا۔ اس کی ڈولی کی جگہ گھر سے اس کا جنازہ اٹھا۔ یہ واقعہ مجھے اندر سے اندر کھاتا گیا۔ اب جب کوئی میت ہوتی ہے تو میں اپنے دل کا غم، یہ بوجھ یہ ‘ٹکی’ گا/کہہ کر ہلکا کر لیتی ہوں۔”

بی اماں کے مطابق ماضی میں اسلامی تعلیمات بارے زیادہ آگاہی نہیں تھی۔ آج ہمیں معلوم ہوا کہ اسلام نوحہ کی سختی سے ممانعت کرتا ہے۔ میت پر اب ہم پہلے کی طرح خود کو مارنے، گریباں چاک کرنے اور چیخ و پکار نہیں کرتے (پشتو میں اسے ‘ویر’ کہتے ہیں) لیکن نوحہ ضرور کرتے ہیں جسے سب لوگ سنتے ہیں۔ جب میت ہوتی ہے تو نوحہ کرنے والی خواتین کی کیفیت ایسی ہو جاتی ہے جیسے ان کا اپنا کوئی قریبی عزیز فوت ہوا ہو۔ ایسے میں وہ خود کو روک نہیں پاتیں۔ گاؤں میں میت ہو جائے تو وہ دوڑ کر وہاں پہنچ جاتیں اور نوحہ شروع کر دیتی ہیں۔ بی اماں کہتی ہیں کہ نوحہ پشتون روایات کا حصہ ہے۔

اسلام میں میت پر ماتم کرنے کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: (مفہوم) وہ ہم میں سے نہیں جو رخساروں کو پیٹے، گریباں پھاڑے اور زمانہ جاہلیت کے کلمات کہے۔ (صیح بخاری) آپؐ نے نوحہ کرنے اور نوحہ سننے والیوں پر لعنت فرمائی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: (مفہوم) نوحہ کی وجہ سے میت کو قبر میں عذاب ہوتا ہے۔ (صیح بخاری/مسلم)

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button