گداگر بچے نے جیسے مجھے دیکھا تو اس نے بھی میرے سامنے ہاتھ پھیلایا
نازیہ سلارزئی
اگر دیکھا جائے تو بھیک مانگنا بھی ایک پیشہ بن چکا ہے۔ جیسے ہی گھر سے باہر کسی کام کے لیے نکلتی ہوں خواں بازار میں ہوں، ٹریفک سگنل پر، کسی گلی سے گزر رہی ہوں، شہر میں ہوں یا کہی اور، پیدل ہوں یا بس میں یہی الفاظ سننے کو ملتے ہیں کہ اللہ کے نام پر کچھ دے دو دو دن سے کچھ نہیں کھایا ہے۔ گھر میں کھانے کو کچھ بھی نہیں ہے۔ خدا کی خاطر میری مدد کریں یا گھر میں بچے سخت بیمار ہے انکے علاج کے لیے پیسے چایئے جیسے الفاظ سننے کو ملتے ہیں۔ یہ الفاظ گویا کہ بھکاریوں نے صحیح رٹے ہوتے ہیں۔
ایک دو دن پہلے ہی کی بات ہے کہ کسی کام سے باہر گئی تھی کہ ایک بھیک مانگتی ہوئی عورت سامنے آئی بھیک مانگنے کے لیے لیکن وہ کسی اور صوبے سے تھی۔ اس کی گود میں تقریبأ ایک سال کا بچہ تھا جسکی سکن دھوپ کی وجہ سے خراب ہوگئی تھی۔ بچے نے جیسے مجھے دیکھا تو اس نے بھی میرے سامنے ہاتھ پھیلایا جیسے کہ ماں نے بھیک مانگنے کی صحیح پریکٹس کروائی ہو۔ جیسے میں نے اس کو نصیحت کرنا شروع کی تو وہ وہاں سے ہنس کر بھاگ گئی۔
ابھی اس عورت سے جان چڑائی ہی نہیں تھی کہ ایک اور ادمی بھیک مانگتا ہوا نظر آیا۔ اس نے وہیل چیئر میں اونچی اواز میں نعت لگائی تھی اور اس میں چھوٹے بیٹے کو بٹھا کر بھیک مانگ رہا تھا۔ خیر اس کی حالت کچھ ایسی تھی کہ اس کو پیسے دئیے بغیر رہ نہ سکی۔ اور بھی بہت سے لوگوں نے اس کو پیسے دیے۔
ان گداگروں کوسب معلوم ہوتا ہے کہ کیسے لوگوں سے پیسے نکلوائے جاسکتے ہیں۔ یہ بڑے ہی ماہر اداکار ہوتے ہیں۔ لوگوں کی توجہ اور ہمدردیاں حاصل کرنے کے سارے گر جانتے ہیں۔
گداگری ایک عادت ہے۔ ایک دفعہ کوئی کسی کو مفت میں پیسے دے دیں تو پھر یہ گداگر تاحیات کسی کام کرنے کے قابل نہیں رہتے ہیں۔
گداگروں میں اپ کو طرح طرح کے گداگر نظر ائینگے۔ جب بھی بازار جاتی ہوں تو ایسے معذور گداگر دیکھنے کو ملتے ہیں جو ہاتھ میں چپل لیے پیٹ کے بل رینگتے ہیں۔ تب انہیں دیکھ کر دل بڑا خراب ہو جاتا ہے۔ لیکن یہاں پر میرا اور اپ کا ایک سوال اٹھتا ہے کہ یہ گداگر اخر معذور کیسے ہو جاتے ہیں؟ ایا یہ پیدائشی طور پر معذور ہوتے ہیں یا حادثات نے انہیں ایسا بنایا ہوتا ہے؟ ان میں کچھ پیدائشی معذور بھی ہوتے ہیں۔ ان میں سے کچھ حادثات کی وجہ سے بھی معذور ہو جاتے ہیں۔ ان میں سے کچھ ایسے بچے بھی ہوتے ہیں جنہیں یہ لوگ اغوا کر کے معذور بنا کر اس کام پر لگا دیتے ہیں۔
اس کے علاوہ بڑے شہروں میں تو ان گداگروں کے یونینز ہوتے ہیں۔ اپنے یونین کے سربراہ کی مرضی سے یہ گداگر سارے کام کرتے ہیں۔ بھیک مانگنے سے پہلے بھکاری مافیا کے سربراہ سے اجازت لینا ضروری ہوتا ہے۔ اجازت لیے بغیر وہ کسی سے بھیک نہیں مانگ سکتے۔ بلکہ ہر بھکاری یونین کے سربراہ کو باقاعدہ کمیشن بھی دیتا ہے۔ ان بھکاریوں کے سربراہ نے ان کے لیے گاڑیوں کا انتظام بھی کیا ہوتا ہے جو انہیں کسی مخصوص مقام پر چھوڑ جاتے ہیں اور پھر رات کے وقت انہیں واپس اٹھا لیا جاتا ہے۔
اب تو ان گداگروں نے ایک نیا کام شروع کیا ہے۔ ہاتھ میں سورت یسین یا کوئی اور دینی کتاب پکڑی ہوتی ہے اور اپ کو کہتے ہے کہ یہ لے لو ان کو پتہ ہوتا ہے جیسے اب تو یہ انکار نہیں کر سکینگے۔ بعض کے ہاتھوں میں تو کسی مدرسے یامسجد کی رسید بک اور سر پر ٹوپی ہوتی ہے۔ آپ کو یہ کہیں گے کہ حسب توفیق صدقہ دے کر اس کار خیر میں شریک ہو جائے۔ ان کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ یہ لوگ بہت ہی کم پیسے مسجد کے لیے دیتے ہیں اور باقی اپنی جیب میں رکھ لیتے ہیں۔
جمعہ کا دن تو ان کا پسندیدہ ترین دن ہوتا ہے۔ اس دن مساجد کے باہر کھڑے ہوجاتے ہیں اور بھیک مانگتے ہیں۔ اس کے علاوہ رمضان کا مہینہ، عید کا دن اور شب برات کا مہینہ تو ان کے خاص ایام ہوتے ہیں کیونکہ ان دنوں زکوات، خیرات اور فطرانے وغیرہ دیئے جاتے ہیں۔
اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ان بھکاریوں کو بھیک دینا جائز نہیں تو پھر کس کو دی جائے زکوات وغیرہ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ سب سے زیادہ حق دار ہمارے اپنے قریبی لوگ ہوتے ہیں۔ ان میں رشتہ دار، دوست احباب اور وہ لوگ جن کو آپ جانتے ہیں کہ ہاں یہ لوگ واقعی حاجت مند ہیں۔ اس کے علاوہ اپنے علاقے اور محلے میں رہنے والے سفید پوش لوگ جو کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے ہیں۔ ایسے افراد کو ڈھونڈ کر ان کو پیسے دینے چاہیۓ۔
مستحق افراد کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کوئی ایسی راہ تلاش کریں جو درست ہو۔ اگر ہم نے بلا سوچے سمجھے اور بغیر تحقیق کے بھکاریوں کو کچھ دیا تو ہم ان لوگوں کا بڑھاوا کر رہے ہیں جو ہمارے ملک کے لیے اور ان گداگروں کے لیۓ نقصان کا باعث ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ ان گداگروں کے لیے کوئی قانون بنائے اور انہیں اس جرم سے روکے۔ گداگری میں سالانہ چار فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان میں بھکاریوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ ان کے لیے کسی روزگار کا انتظام کیا جائے تاکہ ملک کے کام اسکے۔
خصوصاً علماء کا فرض ہے کہ جہاں تک ممکن ہوسکے ان کو روکے کیونکہ اسلام میں سختی سے اس کی ممانعت کی گئی ہے۔
عام لوگوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے خیرات وغیرہ اپنے غریزواقارب اور محلے میں ضرورت مند لوگوں کو ڈھونڈ کر دے۔ جس سے ان کی ضروریات کسی نا کسی طور پر پوری ہونگی اور اپ کو اصل ثواب مل سکے گا۔
نازیہ سلارزئی اکنامکس گریجوئیٹ اور بلاگر ہے