اگر ژالہ باری نہ ہوتی تو مدد خان کو شاید مزید گندم کی ضرورت نہ پڑتی!
افتخار خان
پشاور کے مضافاتی علاقہ شیخ محمدی کے مدد خان نے اپنی گندم کی فصل بالآخر سنبھال لی۔ فصل کی کٹائی اور تھریشنگ کے مرحلے میں بارش اور ژالہ باری نے انہیں کافی تھکا تو دیا لیکن اب ان کے کچھ آرام کرنے کے دن ہیں۔
40 من گندم کی پیداوار کے باوجود 60 سالہ مدد خان مایوس اور فکرمند ہیں۔ مایوس اس لئے کہ بے وقت بارشوں خصوصاً ژالہ باری کی وجہ سے ان کی گندم کی فصل کا ایک بڑا حصہ خراب ہو گیا ہے جس سے پیداوار بھی توقع سے کم ہوئی۔ اور فکرمندی کی وجہ وہ ملک میں گندم اور آٹے کی بڑھتی قیمتیں بیان کرتے ہیں: "میرا گھرانہ 25 افراد پر مشتمل ہے؛ اپنی گندم ہمارے پورے سال کے لئے ناکافی ہے اس لئے ہمیں مزید گندم بھی چاہئے ہوگی لیکن قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے فی الحال خریدنے کی گنجائش بالکل نہیں ہے۔”
انہوں نے کہا کہ آس پاس علاقوں میں اس وقت گندم کی قیمت فی من 6 ہزار روپے تک ہے جو کہ پچھلے سال کے مقابلے میں دگنی ہے۔ اگر ژالہ باری نہ ہوتی تو مدد خان کو شاید مزید گندم کی ضرورت نہ پڑتی۔
خیبر پختونخوا میں حالیہ بے ترتیب بارشوں اور ژالہ باری سے مدد خان کے ضلعے سمیت مختلف اضلاع میں گندم کی فصل کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ محکمہ زراعت کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال گندم کی مجموعی پیداوار توقع سے ایک لاکھ ٹن کم رہنے کا خدشہ ہے۔
خیبر پختونخوا کے محکمہ زراعت کے ادارے کراپس رپورٹنگ سروسز سے حاصل کئے گئے ڈیٹا کے مطابق رواں سال صوبے میں 19 لاکھ 31 ہزار 12 ایکڑ زمین پر گندم کی فصل کاشت کی گئی تھی جس سے 14 لاکھ میٹرک ٹن پیداوار کی توقع تھی۔ لیکن کٹائی کے سیزن میں بارشوں اور ژالہ باری سے اندازتاً ایک لاکھ میٹرک ٹن تک نقصان ہوا ہے۔
کراپس رپورٹنگ سروسز کے جی آئی ایس سپیشلسٹ عزیر احمد کہتے ہیں کہ سیٹلائٹ تصاویر اور فیلڈ وزٹس کے دوران مرتب کردہ ڈیٹا کے مطابق خیبر پختونخوا میں 36 ہزار ایکڑ سے زائد ایسا رقبہ شدید بارشوں اور ژالہ باری سے متاثر ہوا ہے جہاں گندم کاشت کی گئی تھی۔ سب سے زیادہ متاثرہ اضلاع میں ڈی آئی خان، بونیر، سوات، مردان اور صوابی کے اضلاع شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صوبے میں گندم کی زیادہ پیداوار انہی اضلاع سے حاصل کی جاتی ہے جو ژالہ باری سے متاثر ہوئے ہیں۔
خیبر پختونخوا میں گندم کی سالانہ ضرورت 50 لاکھ میٹرک ٹن ہے جبکہ پیداوار ہر سال 12 سے 13 لاکھ میٹرک تک رہتی ہے۔ باقی ضرورت کا 75 فیصد پنجاب اور باہر ممالک سے درآمد کیا جاتا ہے۔ رواں سال پیداوار میں کچھ اضافے کا امکان ظاہر کیا جا رہا تھا تاہم بارش اور ژالہ باری نے ان امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔
گندم کی ضرورت اور پیداوار
پاکستان میں رواں سال گندم کی فصل شاندار قرار دی جا رہی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے بھی چند دن پہلے ایک ٹویٹ میں گندم کی فصل کو شاندار قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ رواں سال پچھلے دس سالوں کے مقابلے میں نسبتاؑ زیادہ گندم ہوئی ہے۔ وزیراعظم نے کہا تھا کہ حکومت کی جانب سے اچھی قسم کے تخم، زمینداروں کو کھاد کی بلاتعطل فراہمی اور کسانوں کو پیکجز کی بروقت فراہمی سے رواں سال ملک میں گندم کی فصل شاندار ہوئی ہے۔
محکمہ زراعت کے مطابق رواں سال ملک بھر میں 2 کروڑ 70 لاکھ ٹن سے زائد پیداوار کی توقع ہے جس کو ملکی ضرورت کے لئے کافی قرار دیا جا رہا ہے۔
پاکستان میں پیدا ہونے والی گندم میں سب سے بڑا حصہ پنجاب کا 71 فیصد ہے؛ دوسرے نمبر پر سندھ 13 فیصد جبکہ خیبر پختونخوا کا حصہ تقریباً 8 فیصد تک ہے۔
ملک بھر میں گندم کی شاندار فصل ہونے پر وزیراعظم شہباز شریف نے پاکستان کے ماضی کی طرح مستقبل قریب میں گندم برآمد کرنے والے ممالک میں شامل ہونے کی امید ظاہر کی ہے تاہم ماہرین کے مطابق ملک کو گندم کے درآمد کنندہ سے ایک بار پھر برآمد کنندہ کی سطح پر لے جانا بہت مشکل ہو گا۔
پشاور زرعی یونیورسٹی کے اگرانومی ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر انعام اللہ کہتے ہیں کہ ہم دن میں تین مرتبہ گندم استعمال کرتے ہیں۔ ہمارا فی کس سالانہ گندم کا استعمال 125 کلوگرام سے زیادہ ہے جبکہ ملک بھر میں سالانہ گندم کی ضرورت 2 کروڑ 90 لاکھ میٹرک ٹن تک ہوتی ہے۔ کچھ عرصہ تک ہم گندم کی پیداوار میں خودکفیل تھے لیکن اب یہ کم پڑتی ہے اور ہم سالانہ 2 سے 3 ملین میٹرک ٹن درآمد کرتے ہیں۔ گندم کی پیداوار کم ہونے کی دو وجوہات ہیں: پہلی آبادی کا بے تحاشا بڑھنا اور دوسری موسمیاتی تبدیلی۔
موسمیاتی تبدیلی کس طرح اثرانداز ہوتی ہے؟
پروفیسر انعام اللہ کہتے ہیں کہ اس کی بڑی مثال خیبر پختونخوا میں حالیہ بے ترتیب بارشیں اور گندم کی کٹائی کے سیزن میں تباہ کن ژالہ باری ہے۔ اپریل اور مئی میں اس طرح کی شدید بارشیں پہلے نہیں ہوتی تھیں اور کسانوں کو اپنی فصل سنبھالنے میں کوئی دشواری بھی پیش نہیں آتی تھی لیکن اب موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بارشوں کی ترتیب بدل گئی ہے۔
"اب پچھلے چند سالوں سے صورتحال یہ ہے کہ اکتوبر اور نومبر میں جب گندم کی بوائی کے لئے بارش کی ضرورت ہوتی ہے تو اس وقت یا تو بہت کم بارشیں برستی ہیں یا بالکل ہوتی ہی نہیں ہیں۔ اکتوبر اور نومبر کی بارشوں کا سلسلہ اب موسم بہار میں آ گیا ہے۔ موسم بہار میں بھی گندم کا دانہ بنتا ہے تو بارشیں اس کے لئے مفید ثابت ہوتی ہیں لیکن جب یہ سلسلہ طویل اور شدید صورت اختیار کر لیتا ہے تو امسال کی طرح تباہی کی وجہ بنتا ہے۔”
پروفیسر انعام اللہ کے مطابق زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ مارچ اور اپریل میں بارشوں کا یہ شفٹ بھی مستقل نہیں ہے۔ پچھلے سال گندم کی پیدوار اس سے پچھلے سال کے مقابلے میں کم ہوئی تھی۔ وجہ یہ تھی کہ پچھلے سال مارچ اور اپریل میں جب دانہ بن رہا تھا تو خشک سالی آ گئی، دانہ صحیح طریقے سے بنا نہیں۔ رواں سال مسئلہ یہ ہوا ہے کہ بارشوں کا سپیل طویل ہو گیا اور اس کے ساتھ شدید ژالہ باری بھی ہوئی جس سے مجموعی پیداوار پر اثر ہو گا اور دانے کی غذائیت بھی متاثر ہو گی۔
ماہر زراعت و موسمیاتی تبدیلی نے مزید بتایا کہ خیبر پختونخوا میں ربیع کے سیزن میں جتنا رقبہ گندم کے زیرکاشت آتا ہے اس میں 67 فیصد رقبہ بارانی ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے اس تمام رقبے پر گندم کی فصل کا بوائی سے لے کر دانہ بننے تک پانی کے لئے 100 فیصد دارومدار بروقت بارشوں پر ہوتا ہے۔ اور اگر بارشیں آگے پیچھے ہو جائیں تو پیداوار پر سیدھا اثر پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ گرین ہاؤس گیسز کی وجہ سے عالمی سطح پر بڑھتا درجہ حرارت بھی گندم سمیت تمام زراعت کے لئے تشویش کا باعث ہے۔
خیبر پختونخوا کے کون سے اضلاع خدشے سے دوچار ہیں؟
ڈاکٹر انعام اللہ نے بتایا کہ مستقبل قریب میں زیادہ درجہ حرارت سے گندم کی فصل پر اثرات ہمارے جنوبی اضلاع میں سامنے آ سکتے ہیں؛ درجہ حرارت بڑھنے سے وہاں گندم وقت سے پہلے پکے گی اور دانہ صحیح طریقے سے نہیں بنے گا۔
محکمہ زراعت کی کراپس رپورٹنگ سروسز کے مطابق خیبر پختونخوا میں گندم کی سب سے زیادہ پیداوار ڈی آئی خان، دوسرے نمبر پر سوات اور اس کے بعد مردان اور صوابی میں ہوتی ہے۔
کراپس رپورٹنگ کے عہدیدار عزیر احمد کہتے ہیں کہ سیٹلائٹ اور فیلڈ وزٹس سے حاصل کئے گئے ڈیٹا کے مطابق حالیہ ژالہ باری سے بھی سب سے زیادہ نقصان جنوبی اضلاع اور بالخصوص ڈی آئی خان میں ہوا ہے۔
کیا ان اثرات سے بچاؤ ممکن ہے؟
پاکستان جغرافیائی اور موسمیاتی طور پر دنیا کے سب ٹراپیکل زون میں واقع ہے اور یہ خطہ موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ گلوبل وارمنگ کے سبب بننے والی گرین ہاؤس گیسز کی پیداوار میں پاکستان کا حصہ حالانکہ ایک فیصد سے بھی کم ہے لیکن پھر بھی ہمارا شمار دنیا کے ان 10 ممالک میں ہوتا ہے جو کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات کے شدید زیر اثر ہیں۔
پشاور کے کاشتکار مدد خان کا ماننا ہے کہ یہ بے وقت بارشیں سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور انسان اس میں کچھ نہیں کر سکتا: "اگر آئندہ برس بھی گندم کی کٹائی کے سیزن میں ایسی بارشیں آئیں تو ہمیں مجبوراً یہ فصل چھوڑ کر کوئی اور فصل اگانی ہو گی اور یا ہو سکتا ہے کہ کاشتکاری کو ہی خیرباد کہہ دیں۔”
پروفیسر انعام اللہ کہتے ہیں کہ جس طرح موسمیاتی تبدیلی گلوبل مسئلہ ہے اور مقامی سطح پر اس پر قابو پانا تقریباً ناممکن ہے لیکن اپنے طور طریقوں میں کچھ تبدیلیوں سے ہم اس کے اثرات ضرور کم کر سکتے ہیں۔
پاکستان میں چونکہ آبادی کا زیادہ تر حصہ زراعت پیشہ ہے اور کلائمیٹ چینج جن شعبہ جات پر اثرانداز ہوتا ہے ان میں زراعت سرفہرست ہے لیکن پروفیسر انعام کے مطابق بدقسمتی سے ہم نے ابھی تک ایسے کچھ خاص اقدامات نہیں کئے تاکہ اس سیکٹر کو ان اثرات سے بچایا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ چونکہ زراعت کی زیادہ تر انڈسٹری کھلے آسمان کے نیچے ہوتی ہے اور موسمیاتی تبدیلیوں کی آفات سے زیادہ متاثر ہوتی ہے اور ان اثرات سے بچنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے لیکن چند ایک تدابیر اور تیاریوں سے یہ اثرات کم ضرور کئے جا سکتے ہیں۔
انہوں نے اس ضمن میں خیبر پختونخوا میں گندم کی مثال دی کہ ربیع کے سیزن میں ٹوٹل زیرکاشت رقبے کا 78 فیصد گندم پر مشتمل ہوتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لئے ہمیں نہ صرف یہ رقبہ بڑھانا ہو گا بلکہ ایسے تخم حاصل کرنے ہوں گے جو شدید اور غیرمتوقع موسمی صورتحال میں بھی اچھی پیداوار دے سکیں۔ اس ضمن میں زرعی یونیورسٹی پشاور سمیت ملک بھر میں چین کے تعاون سے چند ایک منصوبوں پر کام جاری ہے تاہم کسی بھی منصوبے میں ابھی تک کوئی بڑی کامیابی نہیں مل سکی ہے۔