لائف سٹائلماحولیات

چارسدہ: سیلاب کے خطرے سے دوچار علاقے کو بچانے کے لئے چھوٹا مگر منفرد منصوبہ

حناء گل

چارسدہ کے سیلاب زدہ علاقہ کوٹ کو مستقبل میں ایسی تباہی سے بچانے کے لئے شجرکاری کا ایک منفرد منصوبہ شروع کیا گیا جس میں سکول کے بچوں کے نام پر پودے لگائے جا رہے ہیں اور ان کی نشونما کی ذمہ داری بھی انہی بچوں کے حوالے کی جا رہی ہے۔

درخت اپنائیں کے نام سے یہ منصوبہ عالمی ادارہ صحت کے تعاون سے شروع کیا گیا ہے جسے تعلیم، صحت اور جنگلات کے محکمے اکھٹے تکمیل تک پہنچائیں گے۔ منصوبے کے تحت سرکاری سکولوں کے 40 بچوں نے بنیادی صحت مرکز کوٹ میں اپنے نام کے پودے لگائے اور عہد کیا کہ اس کا خیال بھی وہ خود رکھیں گے۔ پودے محکمہ جنگلات کی جانب سے فراہم کیے گئے تھے۔

چارسدہ کے ضلعی صحت افسر ڈاکٹر فرہاد کا کہنا ہے کہ درخت اپنائیں منصوبے کے لئے ڈبلیو ایچ او کا مالی تعاون حاصل ہے۔ منصوبے کے تحت کوٹ بی ایچ یو میں 300 پودے لگانے تھے لیکن جگہ کم پڑنے پر اب باقی پودے دیگر مراکز میں لگائے جائیں گے۔ ہر پودے کے ساتھ اس کے لگانے والے بچے کی نام کی تختی بھی لگی ہوئی ہے۔ اس منصوبے سے نہ صرف ماحولیاتی الودگی کم ہوگی بلکہ مستقبل کے ان معماروں کو ان درختوں کے فوائد کے حوالے سے آگاہی بھی ہوگی۔
درخت اپنائیں منصوبہ چارسدہ کے جس علاقے میں شروع کیا گیا ہے وہ گزشتہ سال کے سیلاب میں زیادہ متاثرہ ہونے والے علاقوں میں شامل ہے۔ منصوبے کے لئے منتخب کیا جانے والا بی ایچ او بھی اسی سیلاب کے نذر ہوگیا تھا جس کی بعد میں ڈبلیو ایچ او کے مالی تعاون سے نہ صرف مرمت کی گئی بلکہ صحت مرکز کو عالمی ادارے کی جانب سے علاج کے لئے جدید آلات اور سامان بھی فراہم کیا گیا۔

گزشتہ سال سیلاب سے ملک کے دوسرے اضلاع کی طرح چارسدہ کو بھی بری طرح متاثر کیا تھا۔ دریائے سوات میں پانی کا دباؤ بڑھنے سے منڈہ ہیڈ ورکس ٹوٹنے کے بعد چارسدہ میں دریائے جندی پر اونچے درجے کا سیلاب آیا تھا جس سے آس کے علاقے سخت متاثر ہوئے تھے۔ فصلوں، باغات، سڑکوں، سکولوں، صحت مراکز اور گھروں سمیت مختلف قسم کے انفراسٹرکچر کو بھی سخت نقصان پہنچا تھا۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق چارسدہ میں سیلاب سے 2 لاکھ سے زائد افراد عارضی طور پر بے گھر ہوگئے تھے۔

اعداد و شمار اور حکومتی اداروں کے مطابق چارسدہ میں 2010 کے سیلاب کے مقابلے میں 2022 کے سیلاب میں نقصان بہت کم ہوا ہے۔ ضلع کے محکمہ جنگلات کا دعویٰ ہے کہ نقصانات میں کمی ایک بڑی وجہ دریا کنارے بڑے پیمانے پر کی جانے والی شجر کاری ہے۔ محکمہ جنگلات کے ایس ڈی ایف او فضل بادشاہ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ چارسدہ کی زیادہ تر زمین زرعی ہے تاہم پھر بھی گزشتہ چند برسوں میں محکمہ جنگلات نے بلین ٹری سونامی اور ٹین بلین ٹری سونامی منصوبوں کے تحت لاکھوں درخت لگائے ہیں۔

انہوں نے کہا ضلع کے 600 ہیکٹیر سے زائد زمین پر مختلف قسم کے پودے اور درخت لگائے گئے ہیں جن میں 435 ہیکٹیر نجی ملکیت کی زمین بھی ہے۔ نجی علاقے میں درخت لگانے کے بعد 3 سال تک اس کی دیکھ بال کی ذمہ داری محکمہ جنگلات کی ہوتی ہے جبکہ اس کے بعد ایک معاہدے کے تحت یہ مالک کو حوالے کیے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس زمین میں 200 ہیکٹیر ایسی زمین ہے جو کہ دریا اور نہروں کے کنارے ہے جسے واٹر لاک کہا جاتا ہے۔ واٹر لاک کے ایک ہیکٹیر میں 4300 تک جبکہ عام زمین پر 1035 درخت لگائے جاتے ہیں۔ واٹر لاک میں زیادہ تر یوکلیپٹس، شیشم اور کیکر کے درخت لگائے گئے ہیں۔

ایس ڈی ایف او نے بتایا کہ ٹین بلین ٹری سونامی کے تحت حکومت کی جانب سے رقوم اور سہولیات کی ادائیگی پہلے ہی بند ہوچکی ہے اور رواں سال جون میں یہ منصوبہ ختم ہوجائے گا۔ تا ہم ایسی صورتحال میں ڈبلیو ایچ او جیسے عالمی ادارے اگر شجرکاری میں اپنی تعاون فراہم کرتے ہیں تو یہ بہت خوش آئند ہے۔

درخت اپنائیں منصوبے کے افتتاح کے موقع پر موجود ڈپٹی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسر محمد زبیر نے بتایا کہ محکمہ تعلیم اور صحت نے ڈبلیو ایچ کو درخواست کی ہے کہ منصوبے کو آگے لے جانے میں بھی تعاون فراہم کریں۔ اگر تمام بنیادی مراکز صحت میں ممکن نہ ہو تو کم از کم 50 فیصد مراکز اسی طرح کے پودے اور درخت لگائیں۔ ایجوکیشن افسر نے بتایا کہ منصوبے میں بچوں کو شامل کرنے کے کئی فوائد سامنے آئیں گے، ان بچوں میں اپنے بڑوں اور اعتماد بڑھے گا کہ ان کے مستقبل کے لئے اقدامات اٹھا رہے ہیں، اس کے علاوہ اس طرح کی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے ان میں خود اعتمادی اور احساس ذمہ داری بھی بڑھے گی۔ یہ بھی امید ہے کہ یہ بچے پھر اپنے گھر اور محلے میں بھی اسی طرح پودے اور درخت لگائیں گے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button