تحریر شمائلہ آفریدی
"دینی تعلیم طالبات کو پرہیزگار بناتی ہے۔ قرآن و احادیث میں زندگی گزارنے کی مکمل رہنمائی موجود ہے۔ عصری تعلیم لڑکیوں کو آزاد خیال، بداخلاق اور بے حیاء بناتی ہے۔ یونیورسٹیز، کالجز، ادارے لڑکیوں کو دین سے غافل کرتے ہیں۔ ایسی لڑکیاں والدین کی نافرمانی کرتی ہیں۔ اپنی بچیوں کو عصری تعلیم نہ دو بلکہ انہیں دینی تعلیم سے آراستہ کرو۔”
یہ الفاظ قاری صاحب کے تھے جو مدرسے میں ختم القران کے موقع پر طالبات کی تقریبِ چادرپوشی سے خطاب فرما رہے تھے۔ میں بھی اس تقریب میں شریک تھی۔ دینی علوم کی اہمیت پر بیان جاری تھا جو دل پر اثرانداز ہو رہا تھا لیکن جب قاری صاحب نے لڑکیوں کے عصری تعلیم کے حوالے سے محولہ بالا ”موتی” بکھیرے تو دل اداس ہو گیا۔ آس پاس خواتین بیٹھی تھیں، مجھے ایسے لگا کہ قاری صاحب نے یہ الفاظ میرے لئے کہے ہیں کیونکہ خواتین کے اس اجتماع میں عصری تعلیم حاصل کرنے والوں میں سے ایک میں بھی تھی۔
قاری صاحب کے سخت الفاظ سن کر میرے ذہن میں کئی سوالات اٹھے، دل کر رہا تھا کہ اس کا بھرپور جواب دوں اور ان سے پوچھوں کہ کیا عصری تعلیم کے بغیر دینی تعلیم حاصل کی جا سکتی ہے؟ کیا اس دنیا میں ترقی کیلئے دوسروں شعبوں میں کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے؟ کیا آپ اپنی خواتین کا علاج ایک لیڈی ڈاکٹر سے نہیں کرواتے؟ اگر کرواتے ہیں تو انھوں نے کہاں سے تعلیم حاصل کی ہے؟ کیا ملک میں اعلی تعلیم حاصل کرنے والی تمام لڑکیاں آزاد خیال اور بے حیا ہے؟ کیا آپ کو ان کا کردار معلوم ہے؟ کیا یونیورسٹی کی طالبات کی کوئی عزت نہیں ہے؟ کیا وہ پردہ نہیں کرتیں؟ دل کر رہا تھا کہ تمام سوالات پوچھوں لیکن ایسا نہیں کر سکتی تھی، بے بس تھی کیونکہ مجھے لگ رہا تھا کہ اگر میں کچھ کہوں گی تو یہ سماج مجھ پر کفر کا فتوی لگا دے گا۔
سوچا کہ جب مدارس میں علماء کرام لڑکیوں کی اعلی تعلیم کے خلاف تنگ نظریات رکھتے ہوں تو والدین جو اپنی بیٹیوں کو اعلی تعلیم دینے کے خواہش مند ہیں وہ کیا خاک ان کو تعلیم سے آراستہ کریں گے۔ مجھے مدارس اور علماء کرام سے بے حد لگاؤ ہے؛ ان کا دل سے احترام کرتی ہوں، انہی علماء کرام کی وجہ سے ہمارا اسلام زندہ ہے۔ میں مسلمان ہوں اور ہر مسلمان علماء کرام، مدارس اور اسلامی تعلیمات کا احترام کرتا ہے لیکن ایسے تنگ نظریات والے پڑھے لکھے افراد کی سوچ ہمیں مزید پستی کی طرف دھکیل رہی ہے۔
قاری صاحب کی بہت سی باتوں سے متفق ہوں لیکن یونیورسٹیوں، کالجز کے بارے میں یہ تاثر کہ وہ لڑکیوں کو بے پردہ بے حیا بناتے ہیں یہ مجھے ٹھیک نہیں لگا۔ جب والدین بیٹی کو اچھی تربیت دیں گے، ان کی پسند ناپسند کا خیال رکھیں گے تو وہ یونیورسٹیز کالجز کیا لاتعداد مردوں میں کام کر کے بھی کوئی غلط کام نہیں کرے گی۔ اور اگر کوئی خراب یا بے حیا ہونا چاہے تو چاردیواری کے اندر رہ کر بھی خراب ہو سکتی ہے۔ یونیورسٹی کالجز ایک لڑکی کو کبھی بے حیائی اختیار کرنے کی تربیت نہیں دیتے بلکہ یہ ہر کسی کی اپنی مرضی ہے کہ وہ کیسا بننا چاہتی ہے۔
جس طرح دینی تعلیم ضروری ہے اسی طرح عصری تعلیم بھی ضروری ہے؛ ہمیں نہ صرف عالم دین کی ضرورت ہے بلکہ وقت کے تقاضوں کے مطابق لڑکیوں کا ڈاکٹرز، ٹیچرز، نرس، جرنلسٹ، لکھاری، سماجی ورکر بننا بھی ضروری ہے کیونکہ وہ مسائل جو ایک عالمہ حل نہیں کر سکتی وہ ایک ڈاکٹر، ٹیچر، جرنلسٹ، لکھاری، سماجی ورکر یا پھر خاتون وکیل شاید حل کر لے۔
عصری تعلیم بری نہیں ہے اور نہ ہی تعلیم دینے والے ادارے بے حیائی کے اڈے ہیں بلکہ وہ معاشرے کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ وہ کسی طالبہ کو مجبور نہیں کرتے کہ آپ روشن خیال بن جاؤ۔ ایسے بے حیائی کی مہر یونیورسٹیز کالجز کی لڑکیوں پر نہیں لگانی چاہیے۔ علماء کرام کو چاہیے کہ عصری تعلیم کے فوائد بھی بیان کریں۔ وہ پالیسیز بیان کریں جن سے یہ نظام بہتر ہو سکتا ہے۔ دونوں ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔ دین سے دور ہونے میں بھی ناکامی ہے اور عصری تعلیم کے بغیر بھی سماج کی ترقی ناممکن ہے۔ مجھے عصری دینی علوم میں کوئی فرق نظر نہیں آتا، علم خواہ دینی ہو یا دنیاوی، حاصل کر کے قوم اور علاقے کی خدمت کرنی چاہیے۔