لائف سٹائل

بے نظیر شیخ کا پارلر معاشی مسائل سے دوچار لڑکیوں کے لیے امید کی ایک کرن

ریحان محمد

پشاور کی رہائشی سیمہ سیکنڈ ائیر میں پڑھ رہی ہے لیکن مالی مسائل کے بناء پر وہ کالج سے آکر تین گھنٹے گھر کے قریب ایک پارلر میں کام سیکھنے میں گزارتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ والد کی آمدن سے بمشکل گھر کے اخراجات پورے ہوتے ہیں اور جب کالج میں کسی چیز کے لئے پیسوں کی ضرورت پڑجاتی ہے تو والدین یہی کہتے ہیں کہ پیسے نہیں ہے پڑھائی چھوڑ دیں لیکن وہ ایسا کرنے کے لئے بالکل تیار نہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ وہ یہاں پر کام سیکھنے کے بعد نہ صرف آگے اپنی پڑھائی جاری رکھ سکتی ہے بلکہ وہ اپنے گھر والوں کی مالی مدد بھی کریں گی۔

پشاور میں واقع یہی پارلر بینظیر شیخ پچھلے پندرہ سال سے چلا رہی ہے جو نہ صرف خواتین کو مفت ہنر سکھانے کی سہولت فراہم کررہی ہے بلکہ خواتین کو معاشی طور پر مستحکم کرنے کے لئے بھی تربیت فراہم کرتی ہے۔ اُن کے بقول  فیس کی ادائیگی جیسے مسائل کی بناء پر بہت سی خواتین پارلر، سلائی کڑھائی اور دیگر ہنر سیکھنے سے رہ جاتی ہیں لیکن یہاں پر گھر کے اندر خواتین کو بغیر کسی فیس کے تمام سہولیات فراہم کی جاتی ہے جبکہ اس ادارے کو ٹیکنکل بورڈ، سیکورٹی ایکسچینج اور چیمبر آف کامرس سے ساتھ باقاعدہ رجسٹرڈ کیاجاچکا ہے اور تربیت مکمل کرنے والی خواتین کو مستند اسناد دئیے جاتے ہیں تاکہ مستقبل میں اُن کو بہتر جگہ پر نوکری مل سکے۔

حسینہ بھی سہ پہر کے وقت پارلر میں تربیت کے حصول کے لئے آتی ہے۔ اُن کی عمر پڑھائی کی ہے لیکن غربت کی بناء پر وہ نہیں پڑھ رہی ہے۔ اُنہوں نے کہاکہ گھر سے باہر کسی اور جگہ پر تربیت لینے کی اجازت نہیں تھی لیکن یہاں پر گھر کے اندر تمام سہولیات کو دیکھنے کے بعد والدین نے اجازت دی ہے، اُن کو اُمید ہے کہ یہاں پر تربیت حاصل کرنے کے بعد اُن کے مالی مسائل میں کمی آجائے گی۔

پاکستان میں معاشی بحران کی وجہ سے مہنگائی او بے روزگاری نے لوگوں کی کمر توڑ رکھی ہے۔ عالمی بینک کے ایک رپورٹ کے مطابق رواں سال پاکستان کے تقریباً 40 لاکھ لوگ غریبی کی زد میں آگئے ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پاکستان کا مستقبل بہت زیادہ غیر یقینی کی حالت میں ہے۔ اس سال صرف 0.4 فیصد معاشی ترقی کا اندازہ ظاہر کیا گیا ہے جبکہ آئندہ مالی سال میں 2 فیصد معاشی ترقی کا اندازہ ہے۔ علاوہ ازیں اس رپورٹ میں رواں مالی سال میں مہنگائی کی شرح 29.5 فیصد رہنے کا اندازہ ظاہر کیا گیا ہے جبکہ آئندہ مالی سال 18.5 فیصد شرح مہنگائی کا اندازہ ہے۔

بے روزگاری اور غربت کے ان حالات میں زیادہ تر لوگ اپنے گھروں کے اخراجات بامشکل پورے کررہے ہیں۔ بینظیر شیخ کا کہنا ہے کہ وہ مہنگائئ کے ان حالات میں خواتین کو بااختیار بنانے کیلئے جلد سلائی کڑھائی، پکوان اور بیوٹیشن کے ہنر سکھانا شروع کریں گی تاکہ خواتین کو ایک چھت کے نیچے تمام سہولیات میسر ہو۔ اُنہوں نے کہاکہ بہت سی خواتین نے اُن کے ساتھ اپنے نام تربیت کے حصول کے لئے لکھوا لیے ہیں تاہم پوری چھان بین کے بعد اُن کو سیکھنے کے مواقعے فراہم کئے جاتے ہیں۔ اُن کے بقول گھروں میں مختلف اشیاء تیار کرنے والی خواتین کو بہتر معاوضے کے حصول کے لئے اُن کو مارکیٹ کے ساتھ جوڑا جاتا ہے اور اُن کے کام کی مفت نمائش کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔

اُنہوں نے کہاکہ خیبر پختونخوا میں محنت کش خواتین بہت ہی اعلی قسم کی چیزیں گھروں میں تیار کرتی ہے لیکن اُن کو بہت ہی کم معاوضہ یا اُجرت ملتا ہے اور زیادہ فائدہ بڑے تاجرو یا دوکاندار لیتے ہے جوکہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔

کائنات حمید خان بھی اسی پارلر میں منیجر کے حیثیت سے کام کررہی ہے۔ اُن کاکہنا ہے کہ پارلر میں کسٹمر کو بھی سہولیات دی جاتی ہیں اور پانچ لڑکیاں باقاعدہ تنخواہ پر کام کررہے ہیں۔ اُنہوں نے کہاکہ مختلف مسائل کی بناء پرپہلے سے خیبر پختونخوا میں خواتین کو معاشی مواقعے بہت کم ملتے ہے جبکہ اس قسم کے چھوٹے کاروبار میں ان کو سہولت فراہم کرنا اُمید کی ایک کرن ہے جس سے وہ اپنے گھر کے مالی مسائل حل کر سکتی ہیں۔

ویمن چیمبر آف کامرس پشاور کے ساتھ آٹھ سو خواتین رجسٹرڈ ہے جو گھروں یا دیگر کمرشل مقامات پر کام کررہی ہے۔ رجسٹرڈ خواتین کو مختلف سطح پرسہولیات مہیا کی جاتی ہے تاہم چیمبر کے مطابق مزکورہ تعداد بہت کم ہے جس کی بنیادی وجہ خواتین میں آگاہی کی کمی ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button