سلمیٰ جہانگیر
"دا ریڈیو پاکستان دے د سلمیٰ جہانگیر نہ خبرونہ واورئ” یہ ریڈیو پاکستان پشاور ہے سلمیٰ جہانگیر سے خبریں سنیے۔” یہ تھی وہ اناؤنسمنٹ جس سے میں نے اپنے کیریئر کا آغاز کیا اور ریڈیو سے ایک رشتہ جوڑا۔ میرے وہم و گمان میں بھی یہ نہیں تھا کہ ایک دن میری آواز ریڈیو کے ذریعے میرے صوبے ،خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں تک جائے گی اور لوگ میری آواز کے گرویدہ ہو جائیں گے، میری آواز سے مجھے پہچاننے لگیں گے۔
2007 جولائی میں جب میں نے ریڈیو پاکستان پشاور سے بطور نیوز ریڈر اپنے کیریئر کا آغاز کیا تو میری خوشی دیدنی تھی کیونکہ ملک کے ایک بڑے ادارے میں کام کرنے کا موقع قسمت والوں کو ملتا ہے اور میں بھی انہیں میں سے ایک تھی۔ تقریباً 14 سال تک میں مسلسل اپنے خدمات ریڈیو کے لیے سرانجام دیتی رہی، اس عرصے کے دوران میں نے ریڈیو سے بہت کچھ سیکھا۔
2013 میں اسلام آباد دھرنے میں جب نیشنل ریڈیو سے نشریات میں خلل پیدا ہوا تو مجھے یہ موقع ملا کہ میں پشاور سینٹر سے پشتو زبان میں خبریں پڑھوں اور تب میری آواز پاکستان کے مختلف علاقوں تک پہنچی اور مجھے بہت پذیرائی ملی، اس دوران میرا ریڈیو سے ایک الگ ہی رشتہ بن گیا۔
ریڈیو پاکستان پشاور سینٹر کی تاریخ پہلی جنگ عظیم سے پہلے کی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس کے عمارت کی تاریخ بھی بہت پرانی ہے۔ پشاور کی خوبصورتی میں ریڈیو پاکستان بھی اہم کردار ادا کرتا رہا لیکن اس خوبصورت یادگاری عمارت پر 10 مئی کو ‘شرپسندوں’ نے حملہ کیا اور ریڈیو پاکستان کی مین گیٹ کو تھوڑ کر اندر داخل ہوئے۔ یہاں میں ریڈیو پاکستان کی سیکورٹی کے حوالے سے بتاتی چلوں کہ گیٹ پر سخت سیکیورٹی ہوتی جب ہم اندر داخل ہوتے سیکورٹی گارڈز چیکنگ کے بغیر کسی کو اندر داخل نہیں ہونے دیتے اور اس کے بعد ہر آنے والے سے اس کا نام اور مکمل پتہ پوچھ کر ان کی انٹری رجسٹر میں کروائی جاتی اور پھر ان کو آگے جانے کی اجازت ہوتی، ریڈیو سٹیشن کے اندر ہر کسی کو داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی۔
10 مئی کو ‘شر پسندوں’ کی طرف سے ریڈیو پاکستان پر حملے کی خبر سنتے ہی میرے ہواس باختہ ہوئے۔ ایسے لگا جیسے کسی نے میرے گھر پر حملہ کیا ہو ٹی وی پر دیکھا تو پوری عمارت آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں تھی، اس وقت حیرانگی کی انتہا نا تھی کہ اس قدر بڑی عمارت کو کوئی اتنی آسانی سے آگ کیسے لگا سکتا ہے، شر پسندوں کو اس میں ایسا کیا نظر آیا کہ جنہوں نے اپنے غصے کا محور ریڈیو سٹیشن کو بنا ڈالا۔ یہ سب دیکھ کر ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے میرے سر سے کسی نے چھت چھین لی ہو۔
حیرانگی کی بات یہ ہے کہ جہاں کوئی بھی بندہ ایک لکڑی کو آسانی سے آگ نہیں لگا سکتا وہاں ایک بہت بڑی عمارت کو اتنی آسانی سے کیسے آگ لگائی گئی یہ کسی عام ادمی کے بس کی بات ہو ہی نہیں سکتی۔ عقل یہی سمجھ رہی ہے کہ ان شرپسندوں میں بہت تجربہ کار اور تربیت یافتہ لوگ شامل تھے جنہوں نے اپنی کسی پرانی دشمنی کا بدلہ لیا ہے۔
اس جلے ہوئے نیوز روم کی تصاویر دیکھ کے دل خون کے آنسو رو رہا ہے، جہاں ہم سب نیوز سٹاف ملکی اور سیاسی حالات پر بحث کرتے، اس نیوز روم سے وابستہ میری بہت سی یادوں کو شر پسندوں نے اپنے مفادات کے تحت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا۔