خالدہ نیاز
9 مئی کو جب رینجرز نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کو گرفتار کیا تو اس کے بعد تحریک انصاف کے کارکنان نے سرکاری عمارات پر ایسے دھاوا بول دیا جیسے وہ کسی دوسرے ملک کو فتح کرنے جارہے ہیں یا دشمن کے خلاف میدان جنگ میں اتر آئے ہیں حالانکہ یہ عمارات انکے اپنے ملک کے تھے جہاں سے انکو ریلیف دی جاتی ہے۔
10 مئی تک حالات اتنے بگڑگئے تھے کہ ٹول پلازے ویران ہوچکے تھے، سڑکیں سنسان ہوچکی تھی اور ہر طرف بے یقینی کی صورتحال تھی، لوگوں نے گھروں سے نکنا چھوڑ دیا تھا کیونکہ انکو بھی جان کے لالے پڑے ہوئے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تحریک انصاف کے کارکنان جو آپے سے باہر ہوچکے ہیں انکی گاڑیوں، موٹرسائیکلوں اور خود انکو نقصان نہ پہنچا دے۔
ملک کے باقی حصوں کی طرح خیبرپختونخوا میں بھی تحریک انصاف کے کارکنان نے سرکاری عمارات پر دھاوا بول دیا تھا اور جان کی پرواہ کیے بغیر کچھ بھی کرنے کو تیار تھے، پشاور میں کارکنان زبردستی لوگوں سے دکانیں بند کروارہے تھے جبکہ جگہ جگہ راستے بند کئے ہوئے تھے جس کی وجہ سے کوئی ضروری کام کے لیے بھی باہر نہیں جاسکتا تھا، ایسے میں مریضوں کا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔
میں خود چھٹی کے وقت بہت مشکل سے گھر تک پہنچی، راستے میں دیکھا جگہ جگہ سینکڑوں افراد کھڑے ہیں اور راستے بند کئے ہیں، پھولوں کا شہر پشاور خون میں لت پت ہوچکا تھا کیونکہ مظاہرین سرکاری عمارات پر چڑھائی کررہے تھے اور حکومت انکو روکنے کے لیے طاقت کا استعمال کررہی تھی، ایسے میں آنسو گیس، شیلنگ کا بھی استعمال کیا گیا اور گولیوں کا بھی، شیلنگ نے تو لوگوں کی جان نہیں لی لیکن گولیوں نے 4 قیمتی بے گناہ جانیں ضرور لی اور اور اس دوران سو سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے۔ یہ سب حالات دیکھ کر میں سوچ میں پڑگئی کہ آخر ہمارے عوام میں سیاسی شعور کب آئے گا؟ کب وہ پرتشدد مظاہروں اور پر امن احتجاج میں فرق کرنا سیکھیں گے؟ کب انکو پتہ چلے گا کہ پاکستان جو اس وقت معاشی مسائل میں گھرا ہوا ہے اس کو نقصان کی بجائے فائدہ دینا ہے، اس کی تعمیرو تری کے لیے کام کرنا ہے ناکہ سرکاری عمارات پر دھاوا بول کے کروڑوں کا نقصان کرنا ہے۔
احتجاج کرنا سب کا بنیادی حق ہے لیکن احتجاج کے نام پہ روڈز بلاک کرنا، سرکاری عمارات کو نقصان پہنچانا، گاڑیوں کو جلانا، راستے بند کرنا، عوام کو تکلیف دینا اور زور زبردستی دوکانیں بندکروانا اور تشدد کرنے کا اختیار کسی کو نہیں ہے۔ میں نے ایک ویڈیو دیکھی جس میں کچھ لوگ ایمبولینس کو نذر آتش کررہے تھے، اس کو دیکھ کر بے حد افسوس ہوا کہ ہم لوگ کتنے بے حس ہوچکے ہیں کہ جس گاڑی میں لوگوں کی زندگیاں بچائی جاتی ہے ہم نے اس کو بھی نہیں چھوڑا، پتہ نہیں ہم کس طرف بڑھ رہے ہیں اور دنیا کو اپنا کونسا امیج دکھا رہے ہیں، پہلے ہی لوگ ہمیں اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے کہ پاکستان تو ایسا ملک ہے جہاں لوگوں کا خون بہت سستا ہے اور چھوٹی چھوٹی بات پہ لوگوں کو مار دیا جاتا ہے، پتہ نہیں ہم کب ہوش کے ناخن لیں گے؟
ہمارے ملک میں سیاسی شعور کی بہت کمی ہے اور عمران خان کی گرفتاری کے بعد موجودہ حالات اس کا منہ بولتا ثبوت ہے، یہی نہیں اس سیاست نے کہیں پہ رشتہ داریاں خراب کی ہے تو کہیں پہ قیمتی جانیں گئی ہے اس سیاست کی وجہ سے کیونکہ لوگوں میں شعور نہیں ہے اور سیاستدانوں کو کرسی کے چکر سے فرصت نہیں ہے تو وہ کیا خاک اپنے ورکرز کی سیاسی تربیت کریں گے، جب بلدیاتی الیکشن آتا ہے تو لوگ ایک دوسرے کے جانی دشمن بن جاتے ہیں، سیاست میں اختلاف ضرور ہوتا ہے لیکن یہ کسی کو زیب نہیں دیتا کہ وہ دوسرے بندے کی جان لے۔
سیاسی کارکنان قائدین کی محبت میں اتنے مست ہوچکے ہیں کہ انکو یہ تک پتہ نہیں چل رہا کہ وہ اپنا کتنا نقصان کرچکے ہیں، ملک کا سرکاری عمارتوں کا نقصان دراصل انکا اپنا نقصان ہے لیکن انکو یہ بات کون سمجھائے گا؟
پولیس کے مطابق خیبرپختونخوا میں پرتشدد مظاہروں میں اب تک 7 مظاہرین جاں بحق جبکہ 58 پولیس اہلکاروں سمیت 300 سے زائد افراد زخمی ہوچکے ہیں اور 12 سرکاری گاڑیوں سمیت 17 گاڑیوں کو آگ لگائی ہے اور اس کا ملال کسی کو نہیں ہے کیونکہ ان مظاہرین کو یہ نہیں معلوم کہ انہوں نے ملک کا کتنا بڑا نقصان کردیا ہے ایک لیڈر کی محبت میں۔
مظاہرین نے ریڈیو پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے، ڈالر 300 تک جاپہنچا ہے، معیشت تباہی کے دھانے پر کھڑی ہے لیکن کسی کو پرواہ ہی نہیں ہے۔ سیاستدانوں کو کرسی کی فکر کھائے جارہی ہے اور شعور سے عاری عوام کو ان سیاستدانوں اور اپنے قائدین کی ایسے میں پاکستان کا اللہ ہی حامی و ناصر ہو۔