خیبر پختونخوا میں افغان بچوں کو پڑھانے والے اساتذہ کیا چاہتے ہیں؟
خیبر پختونخوا کے لوئر دیر سمیت مختلف اضلاع میں افغان پناہ گزین کے سکولوں میں گزشتہ 40 سالوں سے تدریسی خدمات سر انجام دینے والے 291 مرد وخواتین اساتذہ نے ریگولر ہونے اور سرکاری سکولوں میں کھپانے کا مطالبہ کر دیا۔
لوئر دیر کے مقامی ہوٹل میں افغان پناہ گزین کے سکولوں میں پڑھانے والے خواتین و مرد اساتذہ نے اجلاس کے دوران بتایا کہ افغان پناہ گزین کے ایڈ منسٹریشن سٹاف، سیکورٹی سٹاف اور ویلج ایڈ منسٹریشن پر کام کرنے والے ہزاروں کی تعداد میں سٹاف کو مستقل کر دیا گیا ہے جبکہ افغان پناہ گزین کے بچوں کو پڑھانے والے ٹیچنگ سٹاف کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک اور نا انصافی کی جاری ہے۔
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے خاتون ٹیچر فرحانہ گل نے بتایا کہ ہم گزشتہ چالیس سالوں افغان پناہ گزین بچوں کو 16 ہزار روپے لیکر 30 ہزار روپے تک ماہانہ تںخواہ پر پڑھا رہے ہیں جس پر مہنگائی کے اس دور میں گزار مشکل ہے اس لئے آج ہم نے اجلاس میں مطالبہ کردیا ہے کہ ہمیں بھی افغان ایڈمنسٹریشن سمیت دیگر پوسٹوں پر کام کرنے والوں کی طرح ریگولر کیا جائے۔
انہوں نے بتایا ہم چونکہ افغان پناہ گزین کے آنے والے نسلوں کے ذہنوں پر کام کر رہے ہیں لیکن اس کے باجود بھی ہمارے ترقی کے لئے کوئی اقدامات نہیں اٹھائیں جاتے، اگر ہمیں ریگولر کیا گیا اور ہماری تخواہوں کو بڑھا دیا گیا تو ہم بہتر طریقے سے اپنے فرائض سرانجام دیں گے ورنہ موجود تںخوا پر ڈیوٹی کرنا ہمارے لئے مناسب نہیں ہے۔
اس موقع پر جمیعت علماء اسلام کے ضلعی امیر سراج الدین سمیت دیگر عہدیداروں نے افغان پناہ گزین کے سکولوں کے ٹیچنگ سٹاف کی مستقل کرنے کے مطالبہ کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس حوالے مرکزی حکومت کے ذمہ داران کو ان کے مطالبات سے آگاہ کریں گے۔