کاش! آج میں بھی لکھ سکتی کہ ہم صحافی آزاد ہیں
شازیہ نثار
عالمی یوم آزادی صحافت کا دن منانے کا تقاضہ ایجنڈا نہیں بلکہ قلم کے مزدوروں کو تسلیم کرنے کا دن ہے جو دنیا بھر میں منایا جاتا ہے۔ عالمی یوم آزادی صحافت کا دن منانا ضروری اور اہم ہیں مگر درحقیقت یہ دن ہمارے ملک میں صحافت سے وابستہ افراد کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے سوا کچھ نہیں کیونکہ آزادی اظہار رائے کا دن منانا تو دور کی بات یہاں تو صحافی کو ڈرانے دھمکانے اور قتل کرنے کے واقعات کو معمول سمجھا جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ایوان میں بیٹھے حکمران عملی طور پر آخر کب قلم کی آزادی کو تسلیم کرکے صحافت جیسے اہم ستون کو مضبوط کریں گے؟
بدقسمتی سے آزادی اظہار رائے کی جرات کرنے والوں کو ہمارے ملک میں خاموش کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔ اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں سال 2022 صحافیوں کے لیے ایک سیاہ سال ثابت ہوا کیونکہ 2021 میں صحافیوں کے ساتھ قتل ،اقدام قتل، تشدد جیسے گھناؤنے واقعات کی تعداد 86 تھی مگر آج قلم اٹھاتے ہوئے آزادی اظہار رائے کا لفظ لکھنے سے پہلے میں سوچ رہی ہوں کہ کیا میرے قلم میں سال 2022 میں صحافیوں کے ساتھ پیش آنے والے دل خراش واقعات لکھنے کی سکت ہوگی، کیا میں لکھ سکوں گی کہ 2022 میں صحافیوں کی آواز دبانے کے 140 واقعات رونما ہوئے؟ اگر ہاں تو کیا ایوان، قانون اور صحافت کے علمبردار یہ بتا سکتے ہیں کہ قلم کے مزدور کے اس قلم کو خون آلود کرنے والوں کو سزا کون دے گا؟
صحافیوں پر حملوں میں 60 فیصد اضافہ تشویشناک بات ہونے کے ساتھ ساتھ لمحہ فکریہ ہے کہ کیا صحافی کو حقائق لکھنے پر جان کی قیمت ادا کرنی پڑے گی؟ گزشتہ سال 140 واقعات میں 56 اسلام آباد میں، 35 پنجاب اور 23 سندھ میں پیش آئیں۔
پاکستان میں صحافیوں کے حقوق کی تنظیم فریڈم نیٹ ورک کی سالانہ رپورٹ کے مطابق اسلام آباد صحافیوں کے لیے زیادہ خطرناک رہا جبکہ پاکستان ایشاء کا واحد ملک ہے جس میں 2021 میں صحافیوں کے تحفظ کے لیے قانون سازی کی گئی۔ مگر ڈیڑھ سال گزرنے کے باوجود بھی اس پر عمل درآمد نہ ہو سکا اور نہ ہی کسی صحافی کی مدد کی گئی جس کا منہ بولتا ثبوت صحافیوں کے خلاف پرتشدد واقعات میں اضافہ ہونا ہے۔
صحافیوں پر تشدد کے 51 کیسز ریکارڈ کیے گئے جن میں 21 حملوں میں صحافیوں کے آلات، ان کے گھروں یا دفاتر کو نقصان پہنچا، قتل کی دھمکیوں سمیت آن لائن یا براہ راست دھمکیوں کے 14 کیسز سامنے آئے تاہم سب سے زیادہ پرنٹ میڈیا کے صحافیوں کو نشانہ بنایا گیا جن میں 26 صحافیوں کو ٹارگٹ کیا گیا اور ڈیجیٹل میڈیا کے پندرہ صحافیوں کو دھمکیاں دی گئیں جبکہ ایک خواجہ سراء صحافی اور 8 خواتین صحافیوں اور میڈیا پروفیشنلز کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
مگر افسوس کے ساتھ مجھے لکھنا پڑ رہا ہے کہ آج کے دن ہمیں عالمی یوم آزادی صحافت کا دن منانے کے بجائے ان چہروں کو بے نقاب کرنا چاہئے جو عوام کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والے صحافیوں کے گلے گھونٹ رہے ہیں۔
نگران وزیر اعلی خیبر پختونخواہ اعظم خان کے مطابق آزادی اظہار رائے انسانی حقوق کے تحفظ کی بنیاد ہے جس کے بغیر کامیاب اور پرامن معاشرے کی تشکیل ناممکن ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ آزادی صحافت کا کردار ایک مسلمہ حقیقت ہے اور صحافت کو ایک جمہوری ریاست کا اہم جز اور چوتھا ستون مانا جاتا ہے۔
دوسری جانب خیبر یونین آف جرنلسٹ خیبر پختونخوا کے صدر ناصر حسین کا کہنا ہے کہ صحافیوں نے فرض کی ادائیگی میں جانوں کے نذرانے دیئے ہیں مگر حکومت نے صحافیوں کے خلاف پر تشدد واقعات کی روک تھام کے لیے کبھی سنجیدہ اقدامات نہیں اٹھائے، حکومتیں اگر سنجیدہ ہوتی تو ماضی میں قتل ہونے والے صحافیوں کے قاتلوں کو سامنے لاکر سزائیں دلواتی۔
کاش کہ آج میں بھی لکھ سکتی کہ ہم صحافی آزاد ہیں غم زدہ چہروں کا درد بیان کرنے کے لیے، عوام کے ٹیکسوں کو چوری کرکے محلات اور کارخانے تعمیر کرنے والوں کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے اور نام نہاد غیرت کے نام پر معصوم زندگیوں کا چراغ گل کرنے والوں کے خلاف قلم اٹھانے کے لئے، کاش کہ ہم صحافی آزاد ہوتے، تو آج میں بھی لکھتی کہ عالمی یوم آزادی صحافت کا دن ہم نے بڑے جوش و خروش سے منایا۔