پشاور میں دریافت ہونے والا ‘عجوبہ’ اور عجیب قوم کے کئی مفروضے!
انور خان
رواں مہینے کے 13 تاریخ کو سماجی رابطوں کے ویب سائٹس پر پشاور میں ایک تہہ خانے کی ویڈیو وائرل ہوئی جس کے بعد وہاں پہنچنے والے لوگوں کی جانب سے کئی مفروضے سامنے آئے۔
ملبے کے پاس کھڑے وزیری اینٹوں کو غور سے دیکھتے آثار قدیمہ کے ماہر لگنے والے ان شہریوں میں سے ایک نے کہا کہ ‘یہاں کروڑوں مالیت کا سونا تھا جو کھدائی کرنے والے رات کی تاریکی میں چوری کرکے لے گئے ہیں۔’
ادھر مٹی کے ڈھیر پر بیھٹے ایک بابا جی نے انتہائی وثوق سے دیوار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ’ وہ والی جگہ وہ جو کونے میں نظر آرہی ہے ادھر ایک بت نصب تھا جو گھر کے مالکان نے نکال کر فروخت کیا ہے۔’ یہاں کھوجیوں کی طرح ادھر ادھر، اوپر نیچے کسی نامعلوم شے کی تلاش میں سرگردان ان لوگوں کو سب سے زیادہ جو رائے پسند آئی وہ بابا جی کی رائے تھی۔
اس کی وجہ تفصیلات بتاتے ہوئے بابا جی کے چہرے کے تاثرات تھی، لیکن میرے خیال میں تاثرات سے زیادہ بت والی کہانی پر زیادہ لوگ قائل ہورہے تھے کیونکہ یہ عمارت مبینہ طور پر ایک سکھ کی ملکیت تھی اور مذاہب کے بارے میں ہم کتنا جانتے ہیں وہاں اندازہ ہوگیا، بھئی سکھوں کا مورتیوں سے کوئی سروکار نہیں، لیکن ہم ہر غیر مسلم کو بت پرست ہی تو سمجھتے ہیں۔
تہہ خانے کے نیچے والے حصہ میں دو اور ماہرین بدھ مت، سکھ مت، آثار قدیمہ و آثار جدیدیہ سے ملاقات ہوئی، مائیک دیکھ کر دونوں ایک اور انکشاف کے ساتھ گویا ہوئے ‘یہ پانچ سو سال پرانی عمارت ہے، مالک مکان نے یہاں سے کروڑوں روپے مالیت کا سونا نکالا ہے’۔ دونوں ماہرین نے اس فاش غلطی کی سزا بارے بھی آگاہ کیا جبکہ پتہ کرنے پر معلوم ہوا دونو وی لاگرز تھے۔
ملبے سے ملنے والے ایک کھڑکی کی تفصیلات بتانے سے فارغ ہوتے ہی ایک صحافی نے رائے دی کہ ‘عمارت اتنی پرانی ہے کہ زیر زمین دوسرے گھروں کے ساتھ ایک تنگ راہ داری کے ذریعے منسلک تھی۔’ آپ کو کیسے پتہ ؟ میں نے سوال پوچھا، سامنے دیوار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا وہ۔۔۔۔! حالانکہ جس جگہ کو وہ راہ داری کہتے تھے وہ دراصل باد خانہ تھا جو عام طور پر سیٹھی ہاوس اور دیگر پرانی تعمیرات کے تہہ خانوں میں ہوتا ہے۔
اس چھوٹی سی گلی میں درجن سے زیادہ ایسے کہانیاں سننے کو ملی لیکن ایک بچے نے ساتھ چلتے چلتے ایک اور تلخ حقیقت سامنے رکھ دی۔ کہا جس وقت یہاں یہ عجوبہ نکل آیا تو لوگوں نے مال غنیمت سمجھ کر ملبے سے لکڑیاں اور دیگر چیزیں چوری کی، کہانی سنانے والے بچہ بھی مال مفت سے فائدہ اٹھانے والوں میں سے تھا کہنے لگا لکڑی کا ایک ٹکڑا یہاں سے اٹھا کر کاکشال میں 300 روپے پر فروخت کیا۔ دکاندار نے کہا کہاں سے لے کر ائے ہو کافی قیمتی لکڑی ہے۔
دوسری جانب مقامی لوگ کہتے یہ کوئی عجوبہ نہیں، کچھ عرصہ قبل تہہ خانہ قابل استعمال تھا، شہر میں ایسے کئی گھر موجود ہیں جہاں کی طرز تعمیر ایسی ہے، جس کی ملکیت ہے ان کے حوالے کرنا چاہئے۔
5 دن گزرنے کے باوجود محکمہ آثار قدیمہ والے اس مبینہ عجوبے کی ملکیت کے بارے میں معلوم نہ کرسکے جبکہ عجلت میں جس شخص کے خلاف تھانہ شاہ قبول میں درخواست دی تھی اس شخص نے ملکیت سے ہی انکار کردیا ہے۔
تاریخ دان کہتے ہیں کہ عمارت نہ پانچ سو سال پرانی نہ کوئی عجوبہ ہے، تعمیر میں وزیر اینٹ اور دیگر چیزیں استعمال ہوئی ہیں لیکن کوئی ڈیکلئرڈ سائٹ نہیں ہے۔