عثمان دانش
وفاقی کابینہ نے 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کروانے کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کو ناقابل عمل قرار دے کر مسترد کر دیا ہے جس پر قانونی ماہرین کی جانب سے مختلف آراء سامنے آ رہی ہیں اور بعض ماہرین اس کو توہین عدالت قرار دے رہے ہیں۔
سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا الیکشن التوا سےمتعلق کیس میں الیکشن کمیشن کی جانب سے 8 اکتوبر کو انتخابات کروانے کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا ہے اور حکم دیا ہے کہ پنجاب میں الیکشن اب 14 مئی کو کرائیں جائیں۔
خیبرپختونخوا سے متعلق سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ کے پی کے بارے میںصورتحال دیکھ کرمناسب فورم پر فیصلہ ہوگا۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد وفاقی کابینہ کا اجلاس طلب کرلیا گیا اور کابینہ نے سپریم کورٹ کا فیصلہ مسترد کردیا ہے وفاقی کابینہ نے سپریم کورٹ کے الیکشن سےمتعلق فیصلےکو ناقابل عمل قرار دیا ہے اور اس فیصلے کو اقلیتی فیصلہ قرار دیا ہے۔
اجلاس کے بعد مسلم لیگ ن کی سینئر نائب صدر مریم نواز نے ٹویٹ کرتے ہوئے وفاقی کابینہ کی جانب سے سپریم کورٹ فیصلہ مسترد کرنے کو بھی ناکافی قرار دیا ہے۔ مریم نواز نے لکھا ہے کہ آئین و قانون کی دھجیاں اڑانے والے اور ایک لاڈلے کو مسلط کرنے والوں کو کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہیئے۔
وفاقی کابینہ کا سپریم کا فیصلہ مسترد کرنے کے اقدام کے کیا اثرات پڑھ سکتے ہیں اس حوالےسے ہم نے آئینی و قانونی ماہرین سے بات کی۔
بیرسٹر گوہر خان نے بتایا کہ وفاقی کابینہ کا اقدام افسوسناک ہے۔ کابینہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرہی نہیں سکتی۔ حکومت اگر سپریم کورٹ کے احکامات پر الیکشن نہیں کراتا۔ تو سپریم کورٹ اپنے فیصلے پر عمل درآمد کرانے کے لئے سپریم بنچ تشکیل دے گا اور اس پر توہین عدالت کی کارروائی بھی ہوسکتی ہے۔
سپریم کورٹ کے وکیل بابر خان یوسفزئی نے اس حوالے سے بتایا کہ عدالتی احکامات کو نہ ماننا سیدھا توہین عدالت ہے۔ 18ویں ترمیم میں separation of power واضح کئے گئے ہیں۔ سپریم کورٹ کا آرڈر جوڈیشل آرڈر ہے اور یہ حکومت کو پابند بناتا ہے کہ وہ عدالتی حکم مانیں گے۔ حکومت کے پاس سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف اپیل کا حق بھی نہیں ہے۔
بابر خان یوسفزئی نے بتایاکہ حکومت اس فیصلے کے خلاف ریویو میں جاسکتی ہے۔ سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کرکے لارجر بنچ تشکیل دینے کی استدعا کرسکتی ہے۔
بابر خان یوسفزئی نے بتایا کہ بہتر ہوتا اگر چیف جسٹس تمام ججز کی مشاورت سے بنچ تشکیل دیتے اور سینئر ججز کو شامل کرتے توآج حکومت کو بھی اعتراض نہ ہوتا۔
بابر خان یوسفزئی نے بتایا کہ مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ سپریم کورٹ نے پنجاب میں 14 مئی الیکشن کی تاریخ دی ہے لیکن خیبرپختونخوا میں الیکشن کی تاریخ کیوں نہیں دی۔ ازخود نوٹس کیس تھا اور یہ دونوں صوبے میں انتخابات التوا سے متعلق تھا لیکن خیبرپختونخوا میں الیکشن کی تاریخ نہیں دی گئی جو کہ حیران کن ہے۔
اس حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کے خیبرپختونخوا کے ترجمان شوکت یوسفزئی نے کہا ہے کہ خیبرپختونخوا میں انتخابات کے لئے سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے۔ گورنر خیبرپختونخوا نے پہلے 28 مئی کی تاریخ دی اور پھر بغیر کسی وجہ بتائے 8 اکتوبر کردی۔ ہم اس حوالے سے قانونی ماہرین کے ساتھ رابطے میں ہے اور کل سپریم کورٹ میں درخواست دائر کریں گے جس میں عدالت سے پنجاب کی طرح خیبرپختونخوا میں بھی انتخابات کی تاریخ دینے کی استدعا کریں گے۔
سیاسی اور عدالتی امور پر گہری نظر رکھنے والے پشاور کے سنیئر صحافی وسیم احمد شاہ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں آج جوصورتحال ہے یہ نئی نہیں ہے۔ 1997 میں بھی ایسے حالات تھے، ججز کے درمیان اختلافات سامنے آئے تھے۔ اب سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے الیکشن کاحکم دیا ہے تو الیکشن کمیشن کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ہر صورت انتخابات کرائے۔ لیکن پھر وہی سوال ہے کہ انتخابات کے لئے وسائل حکومت فراہم کرے گی، اگر حکومت کہتی ہےکہ ہم سیکیورٹی نہیں دے سکتے اور فنڈ بھی نہیں ہے تو پھر الیکشن کمیشن کےلئے انتخابات کا انعقاد مشکل ہوگا۔ وفاقی کابینہ کی جانب سے سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرنا ایک الگ مسئلہ ہوگا۔
وسیم احمد شاہ نے بتایا کہ اگر حکومت سپریم کورٹ کی حکم عدولی کرکے الیکشن نہیں کراتے تو پھر سپریم کورٹ توہین عدالت میں وزیراعظم کو طلب کرکے ان کے خلاف کارروائی کرسکتی ہے۔ ہمارے سامنے ایسی مثال پہلے سے بھی موجود ہے جب سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے عدالتی احکامات نہیں مانے تو 2012 میں سپریم کورٹ نے انھیں توہین عدالت کیس میں نااہل کر دیا تھا۔
سینئیر صحافی نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ سیاسی پارٹیاں مل بیٹھ کر اس مسئلے کاحل نکالیں, اگر سیاسی پارٹیاں اس طرح ہر مسئلہ عدالتوں میں لے جائے گے تو پھر مسائل مزید بڑھے گے اور جب سیاسی پارٹیاں آپس میں بات جیت سے مسائل کا حل تلاش نہیں کرتی تو پھر غیر جمہوری قوتوں کو موقع ملتا ہے جیسا ماضی میں کئی بار ہوا ہے۔