گورنر خیبر پختونخوا کی جانب سے انتخابات کے لئے تاریخ کا تعین، کیا الیکشنز ممکن ہوں گے؟
عثمان دانش
گورنر خیبر پختونخوا حاجی غلام علی نے صوبے میں عام انتخابات کے لئے 28 مئی کی تاریخ دے دی۔
اس سلسلے میں 14 مارچ کو اسلام آباد میں الیکشن کمیشن کا اجلاس ہوا جس میں گورنر خیبر پختونخوا حاجی غلام علی نے شرکت کی جہاں انہوں نے الیکشن کمیشن کو 28 مئی کو پولنگ کرانے کی تجویز دی۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے ازخود نوٹس کیس میں آئین کے مطابق صوبائی اسمبلی الیکشن کو یقینی بنانے کا حکم دیا تھا اور صدر مملک عارف علوی نے الیکشن کمیشن سے مشاورت کے بعد پنجاب میں 30 اپریل کو الیکشن کا اعلان کیا تھا۔
الیکشن کی تاریخ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق ہے؟
سپریم کورٹ کے وکیل بابر خان یوسفزئی ایڈووکیٹ نے گورنر کی جانب سے صوبے میں الیکشن کرانے کی تاریخ کو خوش آئندہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ کئی دنوں سے لوگ انتخابات کے حوالے سے کنفوژن کا شکار تھے، اب گورنر نے تاریخ دے دی تو گیند الیکشن کمیشن کے کورٹ میں ہے۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کا خیبر پختونخوا اور پنجاب میں انتخابات کرانے کا حکم، ماہرین کیا کہتے ہیں؟
ان کے مطابق الیکشن کمیشن کو اب انتخابات کی تیاریاں کرنی ہے کیونکہ تاریخ تو دے دی گئی ہے اس لئے جتنا جلدی ہوسکے الیکشن شیڈول کریں اور تیاریاں شروع کریں۔
بابر خان نے سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کیس فیصلے کو اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ سپریم کورٹ نے 90 دنوں کے اندر انتخابات کرانے کا حکم دیا تھا تاہم یہ واضح نہیں تھا کہ اسمبلی تحلیل ہونے کے 90 دن بعد الیکشن ہوگا یا سپریم کورٹ نے جس دن فیصلہ سنایا تھا اس کے نوے دن بعد الیکشن کا انقعاد ہوگا؟
انہوں نے بتایا کہ انتخابات کے لئے الیکشن کمیشن کو 50 دن سے زائد وقت درکار ہوتا ہے جس میں الیکشن کمیشن اپنی تیاری مکمل کرتا ہے جبکہ سیاسی پارٹیوں کو بھی الیکشن مہم کے لئے وقت درکار ہوتا ہے، لوگوں کو اپنا منشور پہنچانے کے لئے سیاسی جماعتیں جلسوں کا اہتمام کرتی ہے اور ڈور ٹو ڈور کمپیئن چلاتی ہیں۔
ان کے بقول اب یہ ساری ذمہ داری الیکشن کمیشن کے ذمہ ہے کہ وہ انتخابات کے لئے کس طرح تیاریاں کرتے ہیں کیونکہ شفاف انتخابات کے انعقاد کے لئے سیکیورٹی کے انتظامات، فنڈز اور دیگر ضروریات الیکشن کمیشن کو پوری کرنی ہیں۔
دوسری جانب پشاور میں کورٹ رپورٹنگ کرنے والے صحافی وسیم احمد شاہ نے ٹی این این کو بتایا کہ جب ازخود نوٹس کیس کی سماعت ہو رہی تھی تو اس وقت حکومت کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ 90 دنوں میں الیکشن کا انقعاد ہونا ممکن نہیں ہے اس وجہ سے سپریم کورٹ نے بھی اپنے فیصلے میں تھوڑی سی نرمی دکھائی ہے۔
سپریم کورٹ کے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ 90 دنوں میں انتخابات کو یقینی بنانے کی کوشش کریں تاہم اگر 90 دنوں میں انتخابات کرانا ممکن نہیں تو پھر قریب ہی کوئی تاریخ دے دی جائے۔
وسیم کے بقول بظاہر تو تاریخ لیٹ لگ رہا ہے تاہم اب گورنر نے یہ تاریخ دی ہے تو اب الیکشن کمیشن کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ کس طرح انتطامات کرتی ہے جبکہ گورنر کے بقول صوبے میں امن و امان کا مسلہ بھی درپیش ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر امن و امان کی بات کی جائے تو 2008 میں امن و امان کی صورتحال ابتر نہیں تھی کیونکہ ان دنوں بے نظیر بھٹو کو شہید کر گیا تھا تاہم کچھ مہنے بعد انتخابات کرائے گئے جبکہ 2013 میں انتخابات کے وقت حالات اتنے بہتر نہیں تھے لیکن پھر بھی انتخابات اپنے مقررہ وقت پر ہوئے تھے۔