جرائمعوام کی آواز

‘طلاق تو لے لی، اب ثابت کرنے کے لئے عدالت کے چکر کاٹ رہی ہوں’

شازیہ نثار

‘والد نے 16 سال کی عمر میں میری شادی ایک بوڑھے امیر شخص سے کر دی تھی، شوہر کی خواہش تھی کہ میں بچے پیدا کروں لیکن دو سال کے بعد جب میری گود نہیں بھری تو شوہر نے مجھ سے لڑنا جگھڑنا شروع کردیا اور دس سال تک میں یہ اذیت برادشت کرتی رہی۔’

یہ کہانی بنوں سے تعلق رکھنے اور پشاور فیملی کورٹ میں پیشی بھگتنے والی 32 سالہ یاسمین کی ہے جنہوں نے شوہر سے طلاق تو لے لی لیکن ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے عدالت کے چکر کاٹ رہی ہیں۔

ٹی این این سے گفتگو میں یاسمین نے بتایا کہ شوہر سے طلاق لینے کے بعد میرے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا اور نہ ہی شادی کے بعد میرا شناختی کارڈ بنا تھا اس لئے وہ اپنی طلاق کو ثابت کرنے اور حق مہر حاصل کرنے کے لئے جنگ لڑ رہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ”لو اب دو مجھے طلاق نامہ تاکہ ابا کی پینشن اپنے نام کروا لوں”

پشاور جوڈیشل کمپلیس کے مختلف فیملی کورٹس میں خلع، طلاق کو ثابت کرنے، نان و نفقہ اور بچوں کے خرچے کے لئے آئی ہوئی ہر خاتون کی کہانی اور درد ایک دوسرے سے زیادہ تکلیف دہ اور اذیت ناک تھا۔ اپنی باری کا انتظار کرنے والی کورٹ روم کے انتظار گاہ کے بنچ پر بیٹے کے ساتھ بیٹھی ہوئی ایک خاتون سے جب میں نے پوچھا کہ آپ کا بھی خلع کا کیس ہے تو ڈرتے ڈرتے  چہرے سے نقاب ہٹا کر بولی کہ طلاق دے چکا ہے اب طلاق کو ثابت کرنا ہے جبکہ میں دو بچوں کا خرچہ مانگ رہی ہوں اور شوہر 5 سال سے طلاق کو ٹال رہا ہے کیونکہ میرے پاس کاغذی طلاق نہیں ہے۔

28 سالہ نگہت نے ٹی این این سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ شوہر ہر روز طلاق دیتا تھا بچوں کے سامنے شدید تشدد کا نشانہ بناتا رہتا مگر بچوں اور گھر کے خاطر برداشت کرنے پر مجبور تھی اب خود ہی گھر سے نکال دیا ہے تو بچوں کی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے پرائے گھروں میں برتن دھوتی ہوں۔

عدالتی اعداد و شمار کے مطابق سال 2022 سے اب تک فیملی کورٹس پشاور کے 6 مختلف عدالتوں میں خلع اور طلاق کے 5 ہزار سے زائد کیسز کا فیصلہ سنایا گیا تاہم 5 ہزار سے زائد نئے مقدموں کی درخواستیں جمع ہوئی ہے، مختلف عدالتوں میں فیصلہ شدہ کیسز میں سالوں سے التوا کے شکار پرانے مقدمات کا بھی فیصلہ سنایا گیا ہے اور اب بھی ہزاروں کیسز چل رہے ہیں۔

دوسری جناب نفیساتی ماہرین کے مطابق معاشرے میں طلاق کی شرح میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ مالی مشکلات جبکہ اکثر کیسز میں منیشات کا استعمال ہوتا ہے۔

اس حوالے سے ماہر نفیسات عقیلہ ابراہیم نے بتایا کہ طلاق لینے والی اکثریت خواتین کی کہانیاں حیران کن ہوتی ہے، مالی تنگدرستی، بے روزگاری اور شکوک و شبہات کی وجہ سے نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے جبکہ ایسے مرد بھی ہوتے ہیں جو بیوی کو طلاق دینے کی وجہ دونوں کی عدم برداشت بتاتے ہیں۔

مزید پڑھیں: طلاق کا اطلاق: جب دو محرم نامحرم بن جاتے ہیں

عقیلہ کے بقول ایسے بروکن فیملز کے بچے میں عام بچوں کے مقابلے میں ذہنی اور اخلاقی طور پر کمزور ہوتے ہیں جس سے ان کی زندگی پر منفی اثر پڑتا ہے۔

دوسری جانب عدالتوں میں خلع اور طلاق کے مقدمات میں تشویشناک حد تک اضافے کو مد نظر رکھتے ہوئے پشاور ہائیکورٹ کے وکیل آصف ضیاء ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ 2014 میں پشاور جوڈیشل کمپلیس میں صرف ایک فیملی کورٹ تھا جبکہ اب ان کیسز پر 6 عدالیتیں کام کر رہی ہیں اور روازنہ کے حساب نئے کسیز آتے ہیں۔

ان کے مطابق یہ کسیز زیادہ تر خواتین کی مالی تنگدرستی، شوہر اور سسرال کی مار پیٹ جبکہ شکوک و شبہات کی نوعیت کے ہوتے ہیں تاہم بعض کیسز میں جوائنٹ فیملی سسٹم میاں بیوی کے درمیان طلاق کی وجہ بنتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ عدالتوں میں کیسز کے فیصلے قانون کے مطابق کیے جاتے ہیں تاہم ایسے مقدمات میں فریقین کی جانب سے دیر کرنے کے حربے استعمال کئے جاتے ہیں جس کی وجہ سے مقدمے پر اثر پڑتا ہے۔

Show More

Salman

سلمان یوسفزئی ایک ملٹی میڈیا جرنلسٹ ہے اور گزشتہ سات سالوں سے پشاور میں قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں کے ساتھ مختلف موضوعات پر کام کررہے ہیں۔

متعلقہ پوسٹس

Back to top button