‘زیتون کی کاشت سے میرے معاشی حالات پہلے سے زیادہ بہتر ہوگئے ہیں’
رفاقت اللہ رزڑوال
حکومت نے خوردنی تیل میں اضافے اور پیداوار سے متعلق شعور اجاگر کرنے کے لئے پشاور ترناب فارم میں ایک نمائشی تقریب کا انقعاد کیا تھا جس میں زیتون کی مخلتف اقسام کے تیل، میٹھے مربے اور اچار رکھے گئے تھے۔
زرعی ماہرین کے مطابق خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی مٹی زیتون کی پیداوار کے لئے مناسب ہے جہاں زیتون کی ایک درخت سے تقریباً 4 لٹر تیل حاصل ہوتی ہے جس کی مجموعی قیمت 10 ہزار روہے تک ہے۔
پشاور ترناب فارم کے ڈائریکٹر جنرل ریسرچ خیبرپختونخوا ڈاکٹر عبدالباری نے بتایا کہ زیتون کی نمائشی تقریب کا اصل مقصد کاشتکاروں کو زیتون سے معاشی طور پر حاصل ہونے والے فوائد اور اسکے پھلوں میں ویلیو ایڈیشن کرکے مختلف خوراکی اجزاء بنانے کا شعور دینا ہے۔
ان کے مطابق پاکستان ہر سال اپنی ضرورت پوری کرنے کیلئے 45 لاکھ ٹن تک خوردنی تیل درآمد کرتا ہے جس میں ہم صرف 7 لاکھ 45 ہزار ٹن خود پیدا کرتے ہیں جو مجموعی طلب 8 فیصد پیداوار ہے۔
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر عبدالباری نے بتایا کہ پاکستان میں اس وقت صرف 11 ہزار ایکڑ زمین پر زیتون کاشت کی گئی ہے جس سے ہر سال مجموعی دو لاکھ ٹن تک پھل کی پیداوار ہوتی ہے جبکہ اس سے 20 ہزار کلو گرام تیل حاصل کی جاسکتی ہے۔
‘مارکیٹ میں فی کلو زیتون کی قیمت ڈھائی ہزار روپے تک ہے جبکہ ایک درخت تین سے چار سال تک پھل دینا شروع کر دیتا ہے جس سے کم از کم چار کلو گرم تک تیل حاصل کی جاسکتی ہے، اگر کاشتگار زیتون کی کاشت پر توجہ دیں تو وہ مالی طور پر مستحکم ہوسکتے ہیں۔’
بلوچستان کے ضلع موسیٰ خیل سے تعلق رکھنے والے کاشت کار احمد بزدار بھی اس نمائشی تقریب میں موجود تھے، ٹی این این سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ جب سے انہوں نے زیتون کی تیل سے ان کی معاشی حالات بہتر ہوگئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ‘میں نے 15 ایکڑ زمین پر تقریباً 2 ہزار تک پودے لگائیں ہیں جن میں سے 11 سو پودوں نے اس سال 36 سو کلوگرام تک تیل دیا تھا، گزشتہ سال اس کی پیداوار چار ہزار لیٹر تھی جبکہ اس سال سیلاب کی وجہ سے پیداوار میں کمی ہوئی ہے مگر پھر بھی اس سال کافی منافع کمایا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس سے میری زندگی بدل گئی۔’
خیبرپختونخوا میں کاشتکاروں کی تنظیم پروگریسیو فارمر آف کے پی کے صدر صلاح الدین نے بھی نوشہرہ کے علاقہ مانکی شریف میں 43 ایکڑ زمین پر 7 ہزار پودے لگائیں ہیں جس سے انہوں نے 4 ہزار 7 سو لٹر تک تیل حاصل کئے ہیں۔
ماہرین کے بتائے گئے اعداد و شمار کے مطابق صلاح الدین کی فصل کی پیداوار کم ہے لیکن ان کا کہنا ہے فصل کی پیداوار کا انخصار آب باشی اور زیتون کی قسم پر ہے۔ ‘اگر آپ بہتر نسل کے زیتون کاشت کرکے پھر آب پاشی کا نظام بہتر کرے تو پیداوار بہتر حاصل ہوسکتی ہے۔’
زراعت کو ترقی دینے کیلئے وفاقی حکومت کی طرف سے پی ایس ڈی پی پروجیکٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عظمت علی اعوان کہتے ہیں کہ زیتون کی کاشت کی منصوبے میں پنجاب، سندھ، گلگت بلتستان، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے صوبے شامل ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ تین سالہ پروجیکٹ ہے اور اس سال ترناب فارم میں یہ میلہ اس لئے سجایا گیا ہے تاکہ کاشتکار اس کے اقتصادی اور مالی فوائد سے آگاہ ہوجائیں کیونکہ ہمارے بیشتر کاشتکار زیتون کی کاشت سے لاعلم ہے۔
عظمت علی کہتے ہیں اس منصوبے کے تحت ہم خواہشمند کاشکاروں کو پہلے تربیت دیتے ہیں پھر ان کے سہولت کیلئے اضلاع کی سطح پر کرشنگ مشین لگائیں ہیں جو مفت میں پھلوں سے تیل نکال کر دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پی ایس ڈی پی کے تحت خوردنی تیل کی پیداوار اگلے پانچ سالوں میں 10 لاکھ 10 ہزار 920 لٹر ٹن تک پہنچ جائی گی اور اگلے 10 سالوں میں 40 لاکھ 7 ہزار 930 ٹن کا ہدف پورا کرے گا جو ہمارے ضروریات پورا کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔