عورت مارچ صرف پاکستان میں ہی کیوں، اور کیسے؟
نوشین فاطمہ
بچپن سے ہی ماہ مارچ دو چیزوں کیلئے جانا جاتا تھا؛ ایک 23 مارچ یعنی قرارداد پاکستان اور دوسرا 31 مارچ جب بچوں کے سکول کے رزلٹ آؤٹ ہوتے تھے لیکن اب تو ماہ مارچ کے ساتھ ہی ایک ہی لفظ لوگوں کے ذہن میں آتا ہے۔۔ عورت مارچ نہ کہ عورتوں کا عالمی دن!
کیوں؟
ہمیشہ کی طرح مجھے ہی محفل میں آڑے ہاتھوں لیا گیا کیونکہ یہ تھے میرے کلاس فیلو، میں ان کے ساتھ آج کل آن لائن ارننگ کا کورس کر رہی ہوں تو ایک طالبہ کے علاوہ باقی دو عورتیں بھی ہمیشہ کی طرح اختلاف رائے کا ہی اظہار کر رہی تھیں۔
میں نے پانی کا گلاس خالی کیا کیونکہ مجھے اندازہ تھا کہ اس کے بعد ڈھیر سارے سوال میں نے کرنے ہیں۔
جی! صدیوں سے ایک تحریک خواتین مزدوروں نے چلائی اور جن ممالک میں چلی اور وہاں کے قوانین کو اپنے حق میں کیا، ان ممالک میں ایسی نفرت، اتنی گھبراہٹ نہیں تو آپ کیوں خوفزدہ ہیں؟
میں یہ سوچ رہی ہوں کہ کیا ہماری عورتیں اتنی طاقتور ہیں کہ صدیوں پرانی تحریک ان ممالک میں وہ مقبولیت حاصل نہ کر سکی جو چند سالوں میں ہمارے ملک میں اس کو ملی۔ اور ان مٹھی بھر عورتوں نے پوری قوم کےمردوں کو ان کے خلاف بولنے پر مجبور کر دیا۔
کیسے؟
کیا یہ واقعی حق پر ہیں کیونکہ اتنا اختلاف تو ہمیشہ حق بولنے والوں کو ہی جھیلنا پڑتا ہے۔
چور کی داڑھی میں تنکا۔۔ جب آپ سب مطمئن ہیں کہ آپ اپنی خواتین کے شرعی اور آئینی حقوق غصب نہیں کر رہے تو یہ ہنگامہ کیسا؟
یا کہ آپ اس خوف سے ہلکان ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو جس مذہب کا استعمال کر کے آپ صرف اپنے حقوق کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں عورتیں اسی مذہب کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے حقوق کا حساب نہ لے لیں کہ مذہب کے حساب سے تو آپ شادی کے پہلے دن سے مجھے الگ گھر دو گے۔ گھر میں ساس سسر کی خدمت بھی آپ کی ذمہ داری ہے۔ اگر عورت کرے تو احسان! ایسے بہت سے حقوق کے جاننے سے کیا آپ سیخ پا ہیں؟
ااگر ایسا نہیں تو یہ ہنگامہ کیوں؟
میرے ایک بھائی کو پتہ نہیں کیوں برا لگا اور کہا ہم کیوں گھبرائیں بھئی؟
اگر آپ گھبرا نہیں رہے تو سامنے آئیے نا، ہمارے ساتھ ہمارے حقوق غصب کرنے والوں کے خلاف کھڑے ہو جائیے نا کہ جو کام ستر یا پچھتر سال سے کوئی حکومت نہ کر سکی وہ ہم نے کر دیا۔
اس دن تقریباً تمام مرد بغیر کسی مذہب، لسانیت، فرقے، نسل، نظریے یا رنگ کی تفریق کے ان عورتوں کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں، کیوں؟
پورا سال دن رات، صبح شام مسلسل اپنی خدمات آپ کو دینے والی عورت آپ کے چہرے کے تاثرات کے بدلتے ہی اپنے احساسات تک بدل دیتی ہے۔ آپ ایک دن دینے پر راضی نہیں جی!
قدرت نے تو دنیا کو خوبصورت بنایا اور ان قاعدوں میں دونوں طرف محبت اور احترام لازمی بنایا، اور تمام ذمہ دریوں کو تقسیم کر دیا۔ اور آپ جو عورتوں کو کمزور اور نازک کہتے ہو، آپ سارا بوجھ عورت پر ڈال دو اور پھر اس کا گلہ تک نہیں سن سکتے، کیوں؟
عورت مارچ کے کچھ سلوگن جن کو آپ نہیں سمجھ سکتے یا وہ عورتیں آپ کو اپنا موقف سمجھا نہیں سکیں، آپ کی پوری آبادی کے آدھے فیصد سے بھی کم ہیں وہ عورتیں، آپ نے تو نفرت شروع کر دی، اس دن کے منانے کو ہی گالی بنا دیا۔
آپ چاہتے ہیں کہ آپ ایک ایسا معاشرہ تعمیر کریں جو دنیا کیلئے مثال ہو تو خود اپنے گھر سے شروع کیجیے۔
روز کتنی ہی گالیاں اور کتنے ہی محاورے آپ کی روزمرہ زندگی میں عورتوں کی تذلیل کرتے نظر آتے ہیں۔ آپ کا محلہ، آپ کے پبلک پلیسز اور آپ کے دفاتر، کیا وہاں ہم کو عزت سمجھ کر ہماری بے عزتی نہیں کی جاتی؟
تو کیا ہی اچھا ہو کہ آپ مجھے انسان ہی سمجھ لو، کوئی عزت کا سامان نہیں جس کو آپ روزانہ کی بنیاد پر اپنی زبان، محاوروں اور گالیوں میں بے توقیر کرتے پھریں۔
آپ مجھ سے اتفاق پھر بھی نہیں کریں گے، کیوں؟
”عزت تو اللہ نے عورتوں کو دی ہے اور اس لئے کیوں ہمیں کوئی عزت نہ سمجھے، ہر جگہ ہی تو ہمیں سراہا جاتا ہے؛ کہانی ہو شعر ہو یا غزل، مرد اپنے آپ پر تو نہیں لکھتا۔” یہ میری دوست کے الفاظ تھے بس بمشکل ضبط کرنا پڑا۔
جی جی گلہ تو مجھے اہل ذوق سے بھی ہے؟ کیوں آپ نے افسانہ لکھا تو مجھے کوئی لوہے کی چیز بنا کے پیش کیا، اگر شعر لکھا تو میرے جسم کے آگے مجھے نہیں سراہا گیا، میری ہوشیاری، میرے شعور اور مہارت کو تو کبھی دنیا دیکھ ہی نہ سکی۔ عورت کی کہانی میں ہمیشہ سے مجھے تکالیف سہنے پر ہی، گھر میں رہنے اور اس پر بادشاہت کے انعامات ملے بجائے اس کے کہ ان تکالیف کا سدباب کروانا سکھایا جاتا۔
پھر ٹیلیویژن کی ٹیکنالوجی ہو یا فلم، عورت کی ذات کو آپ صرف کوئی چیز ہی بنا کر پیش کرتے ہیں۔ اور تو اور اس کی قابلیت کو چھوڑ کر تمام میڈیا نے اسے بنا دیا ڈیکوریشن پیس، پوچھنے کا حق تو ہے نا کہ کیوں؟
اصل میں یہ کیوں وہی عورت پوچھ سکتی ہے جس کو آپ نے اپنے معاشرے کے ستم سے اتنا ڈرا دیا کہ اس کا ڈر ختم ہو گیا ہو۔ لیکن یہ راستہ تو بہت پرخار ہے اور اذیت ناک بھی!
اور دوسرا یہ سوال وہ عورت کرے گی جس کے پاس ایسے والدین ہوں جن کو پتہ ہو کہ بیٹا اور بیٹی دونوں ایک جیسی اولاد ہیں اور کیسے ان کی تربیت کرنی ہے۔ ایسی بہادر بیٹیاں ان کے ہاں ہی پائی جاتی ہیں۔ یا کوئی ایسا بہادر بھائی یا شوہر ہو۔
میں بھی اس بات کو دل سے تسلیم کرتی ہوں کیونکہ کہیں بھی عورتوں کے عالمی دن کا مطلب یہ نہیں کہ میں کسی بھی جنس سے نفرت کروں یا چاہوں کہ مجھے برتری ملے۔
اس معاشرے کو توازن کی ضرورت ہے۔ اور یہاں آپ نے ہر جنس کو احترام اور پرسکون زندگی کی آزادی دینا ہو گی۔ ہر جنس کو گھر کے فیصلے سے لے کر بازار اور پارکوں میں جانے تک پرسکون اور محفوظ ماحول دینا پڑے گا کیونکہ اس سے مذہب اور آئین کو نہیں صرف پدرسری نظام کو چوٹ لگتی ہے۔
تو خدارا! اس کو تو آپ نہ ہی بچائیں، اس نظام نے ہر جنس کو تکلیف میں رکھا ہے۔ اگر آپ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں تو کیسے؟
اور اگر نہیں تو کیوں؟
ہم کو تسلیم کرنا ہو گا کہ ہم نے عورتوں کو وہ تعلیمی مواقع دیئے نہ ہم اپنے نصاب میں اپنی نسل کو اس بات پر راغب کر سکے، نہ ہی ہم کم عمری میں شادی کو روک سکے اور نہ ہی غیرت کے نام پر قتل کو! آج بھی ہم وہ ماحول نہیں بنا سکے کہ عورت باہر جا کر خود کو محفوظ تصور کر سکے۔
دیکھو! اب شاید میری آواز میں درد بھر آیا تھا، اگر ہم اپنی غلطیوں کو تسلیم کریں گے تو ہی ان کا سدباب کر سکیں گے۔ عورتوں کا عالمی دن منانا، ان کے ساتھ کھڑا ہونا ایسا کون سا گناہ ہے کہ جس سے اتنی نفرت کی جا رہی ہے، کیوں؟
پھر ہم سب خاموش تھے کیونکہ دل ہی دل میں شاید انہوں نے بھی کہا کہ اس کیوں کا جواب بہت مشکل ہے بلکہ ان حالات میں تو ناممکن ہے۔
اور ہاں! بحث کرنے اور جواب دینے میں فرق ہوتا ہے۔
کیا آپ کے پاس اس کیوں اور کیسے کا جواب ہے؟
نوشین فاطمہ ایک سماجی کارکن اور بلاگر ہیں۔