منشیات، جنسی بے راہ روی، 18 سال بعد لبنٰی کو اب اپنی غلطی کا احساس ہوگیا
اٹھارہ سال پہلے اپنے شوہر نے ایک مخصوص انجکشن لگوا کر دیا جس کے بعد روز انجکشن لیتی رہی ایک بار مارکیٹ سے گھر جاتے ھوۓ سڑک کنارے بیٹھے نشہ کرتے ہیرؤنچیوں پرنظر پڑی تو پاس جا کر رکی وہ دھواں مجھے میٹھا میٹھا لگا
شازیہ نثار
چند سال پہلے لبنیٰ کی زندگی ایک عذاب سے کم نہ تھی۔ وہ نشے کی لت میں مبتلا تھیں، خاوند سے طلاق لینے کے بعد پہلے بڑے پارٹیوں میں جانے لگی، جنسی بے روی کا شکار ہوگئی تو ساتھ میں سڑک کنارے بیٹھے ہیروئنچیوں کے ساتھ بھی مل بیٹھ گئی اور ہیروئن کی عادی ہوگئی۔ پھر علاج کے بعد اب وہ اسی منشیات بحالی مرکز میں نشہ میں مبتلا خواتین کی خدمت کرتی ہے جہاں کبھی ان کا علاج ہوا تھا اور یہی ان کی نہ صرف نوکری بلکہ زندگی کا مقصد بھی بن چکا ہے۔
8 مارچ کو خواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے ایک انٹرویو میں جب 42 سالہ لبنیٰ سے پوچھا گیا کہ کبھی دوبارہ نشے کی طلب نہیں ہوئی تو مسکرا کر بولی کہ نہیں اب یہ زندگی میری نہیں ان خواتین کی ہے جس کے درد کو میں اپنے اندر محسوس کرتی ہوں.
لبنیٰ نے زندگی کے 18 سال ضایع کر دیے ہیں اور یہی ان کی زندگی کی سب سے بڑی پشیمانی بن چکی ہے۔
باہمت لبنیٰ نے "ٹی این این” کو اپنی کہانی سناتے ہوئے کہا میں جینا چاہتی ہوں ،زندگی کے ہر رنگ سے محبت کی ہے مگر حالات اور بے راہ روی میں پڑ کر میں نے اپنی جوانی اور عزت دونوں نشے کی دھوائیں میں اڑا کر برباد کر دی تھی۔ 18 سال تک نشے میں گزار کر صرف ذلت ملی اب زندگی کو دوبارہ محسوس کرنے لگی ہوں۔ لبنیٰ کا کہنا ہے کہ منشیات سے پاک پشاور مہم میں نشے میں دھت سڑک کنارے سے ریسکیو کر کے نشہ بحالی سنٹر لایا گیا تھا۔
اٹھارہ سال پہلے اپنے شوہر نے ایک مخصوص انجکشن لگوا کر دیا جس کے بعد روز انجکشن لیتی رہی ایک بار مارکیٹ سے گھر جاتے ھوۓ سڑک کنارے بیٹھے نشہ کرتے ہیرؤنچیوں پرنظر پڑی تو پاس جا کر رکی وہ دھواں مجھے میٹھا میٹھا لگا اس کے بعد سے ہیروئن لینا شروع کر دیا اور پھر گھر بچوں کو چھوڑ کر گھر سے نکل گئی۔ شوہر نے طلاق دی اور میں پارٹیوں میں دوستوں کے ساتھ جاکر وہاں نشے کے انجکشین ،شراب اور أئس وغیرہ استعمال کرتی تھی۔ پشاور میں مختلف مقامات پرپارٹیاں ہوتی ہے نشہ بھی ہوتا ہے اور جنسی بے راہ روی بھی عروج پر ہوتی ہے وہاں نشہ مفت ملتا ہے۔ پارٹیز میں یونیورسٹی گرلز ،نرسز اور شادی شدہ خواتین بھی آتی ہیں .
لبنیٰ نے بتایا کہ میں چلنے پھرنے کے قابل نہیں تھی مجھے رہیب سنٹر لایا گیا تھا مگر آج میں فخر سے اسی نشہ بحالی سنٹر میں جاب کر کے تنخواہ لیتی ہوں اور عزت سے نوکری کر کے زندگی گزار رہی ہوں۔ یہاں پر بحالی مرکز میں جیسے جیسے نشے کا اثر ختم ہوتا گیا تو مجھے محسوس ہونا شروع ہوا کہ میں نے زندگی کے خوبصورت سال کس طرح برباد کر دیے ہیں۔
ندامت اور شرمندگی کے سوا میرے پاس کچھ نہیں تھا۔ تو تب ہی میں نے ارادہ کیا کہ "میں پڑھی لکھی اس دور کی عورت ہوں "مجھے زندگی میں واپس آنا ہے مجھے زندگی کو گزارنا نہیں زندگی کو جینا ہے اور جب میرا 3 ماہ کا علاج مکمل ہوا تو میں نے منشیات بحالی سنٹر کی انتظامیہ سے درخواست کی مجھے یہاں نوکری پر رکھ لیں کیونکہ سنٹرمیں موجود معاشرے کی دھتکاری ان نشئی خواتین میں مجھے اپنا آپ دکھائی دیتا ہے۔ لبنیٰ نے آبدیدہ ہو کے کہا کہ نشے کی لعنت سے اپنی زندگی ،عزت اور گھر کو برباد کرنے والی یہ خواتین نفرت کی نہیں ہمدردی اور توجہ کی مستحق ہے اور میری طرح کئی خواتین زندگی میں واپس آنا چاہتی ہے۔آج میں فخر سے عزت کے ساتھ محنت کر کے رزق کما رہی ہوں تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ 18 سال ایک بھیانک خواب کی طرح گزرے ہیں ۔
ہمارے معاشرے میں آبادی کے ایک بڑے حصے اور بالخصوص نوجوان طبقے میں نشے کی لت روز بروز بڑھ رہی ہے۔ ماہر نفسیات ڈاکٹر اقتدار روغانی کا کہنا ھے کہ خواتین بھی اس لت کا شکار ہو رہی ہے۔ ان کے مطابق نشے کی وجہ سے شخصییت کے اندر ناگوار تبدیلیاں آتی ہے اور دماغی توازن میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔
اکثر ایسے کیسز ہمارے پاس آتے ہیں جس میں زیادہ ترنشے کی عادی خواتین اور کم عمر بچے جنسی بے راہ روی کا بھی شکار ہوتے ہیں۔ ان خواتین کو علاج کے ساتھ ہمارا معاشرتی رویہ بھی واپس زندگی کی طرف لا سکتا ہے اور لبنیٰ کی طرح کئی خواتین نشے کی لت کو چھوڑ کر واپس ایک مکمل زندگی گزارنا چاہتی ہیں ۔
پشاور سمیت صوبہ بھر کے منشیات بحالی مراکز میں اب صرف مردوں کو نہیں بلکہ ایک بڑی تعداد میں خواتین کو بھی لایا جاتا ہے۔ خیبر پختونخواہ میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پچھلے 6 ماہ کے دوران 200 سے زائد خوا تین کو علاج کے بعد گھر بھیج دیا گیا ہے اور اب بھی مختلف منشیات بحالی مراکز میں سینکڑوں خواتین زیر علاج ہے
"خکلے جوند” منشیات بحالی سنٹر کی انچارج میڈم سدرہ نے بتایا کہ جب لبنیٰ کو ہماری ٹیم یہاں لے کر آئی تھی تو لبنیٰ بری طرح ذہنی طور پر کمزور اور بری حالت میں تھی مگر لبنیٰ پڑھی لکھی گریجویٹ خاتون ہے جو فر فر انگلش بولنے میں بھی ماہر ہے۔ یہاں علاج اور کونسلنگ ہوتی رہی تو لبنیٰ بڑی تیزی کے ساتھ زندگی کی طرف لوٹی ۔
علاج کے ساتھ ساتھ لبنیٰ سنٹر میں ہونے والی گیمز اور رہیب سیشنز میں بھی بھر پور حصہ لیتی تھی۔ تین ماہ کے علاج کے بعد لبنیٰ کی خواہش پر ہم نے اسے نوکری پر رکھ لیا ہے اور اب ایک پرسکون زندگی گزار رہی ہے جو سنٹر میں موجود زندگی سے مایوس ان نشئی خوتین کیلیے ایک ہمت اور مثال ہے ۔