بلاگزلائف سٹائل

میں لکھاری میں بیچاری

نوشین فاطمہ

ہمیشہ سے سنا اور پڑھا ہے کہ لکھنا ایک آرٹ ہے۔ اور یہ کہ لکھاری جب چاہے جس موضوع پر لکھنا چاہے لکھ سکتا ہے۔ اس کو اس پر پورا پورا کمال حاصل ہوتا ہے۔

اور ہوا کچھ یوں کہ بچپن سے ہی پڑھنے اور لکھنے کا شغف مجھے بھی رہا، وقت کے ساتھ بس موضوعات میں دلچسپی بدلتی رہی۔ اور کچھ وقت قبل میں نے ایک ادارے ٹی این این  کے ساتھ باقاعدہ پیشہ ورانہ طور پر لکھنے کی تربیت بھی لی۔ اور اگر سچ کہوں یہ میرے لیے اتنا آسان رہا کہ منٹوں میں ہی موضوع ذہن میں آیا اور اس کو پوری ترتیب دینا کبھی مشکل رہا ہی نہیں۔ اور میرے لکھے مضامین کو قارعین نے سراہا بھی۔ سچ کہیے تو پھر یوں ہوا کہ اچانک میرے لکھنے کی حس کو جیسے تالا لگ گیا۔ بلکہ بڑھے بوڑھوں کی بات کہ مجھے میری ہی نظر لگ گئی۔

جی ہاں دماغ جیسے ساکت ہو گیا اور سن سا ہو گیا ہو؛ چاہ کر بھی نہ مطالعہ کر سکی اور نہ ہی کچھ لکھا گیا مجھ سے!

ہر دفعہ ایسا نہیں ہوتا کہ جب لکھاری اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنا چاہے اور وہ کچھ لکھ بھی سکے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے  کہ وہ لکھنے بیٹھ جاتا ہے اور گھنٹوں سوچنے کے بعد بھی وہ ایک لفظ تک نہیں لکھ پاتا۔ اور کبھی تو یوں بھی ہوتا ہے کہ ہم سوچ میں پوری کہانی سوچ لیتے ہیں اور لکھتے وقت ایک لفظ بھی ساتھ نہیں دیتا جیسے الفاظ روٹھ گئے ہوں۔

اور سننے میں آیا ہے کہ کبھی کبھی اچھے اچھے لکھاری بھی اس مسئلے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بس یہ سوچ کر خود کو تسلی دیتے۔۔ وہ ایک شعر  کا مصرعہ ہے نا

دل کے خوش رکھنے کو غالب، یہ خیال اچھا ہے

اور ہوا یوں کہ جس ادارے ٹی این این سے میں نے تربیت لی تھی وہ مجھے بلاگ لکھنے کا معقول معاوضہ بھی دیتا ہے۔ اور ہم نے ہفتہ وار میٹنگ میں وعدہ بھی کیا کہ میں دو دن میں بلاگ لکھ لوں گی لیکن وہی ہوا، میں کچھ لکھ ہی نہیں پائی باوجود اس کے کہ میں نے ان کے ساتھ مل کر موضوع کا انتخاب بھی کیا۔

ویسے میں اگر ایمانداری سے کام لوں تو سچ یہ ہے کہ میں فطرتاً بہت کاہل ہوں۔ اور کمالیت پسند بھی! میں لکھنے کا  کام نہایت کامل طریقے سے کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ لیکن ان کو بلاگ بھیجنے میں اکثر نہیں ہمیشہ ہی دیر کر دیتی ہوں۔ اور یوں میں اپنی غلطی کو کھلے دل سے تسلیم کر کے دوسروں کا غصہ شانت کرنے کا طریقہ بھی جانتی ہوں۔

خدا گواہ ہے مجھے سو اعلیٰ قسم کے بہانے بنانے آتے ہیں لیکن جب بھی میں نے بلاگ لکھا قاری کی سوچ پر ضرور چھا جاتا ہے۔

جب کچھ دن قبل ایک کام کے سلسلے میں ادارے جانا پڑا تو ایڈیٹر صاحب نے بہت مخلصانہ انداز میں گلہ کیا کہ آپ بہت اچھا لکھتی ہیں شاید آپ اسی لیے نہیں لکھتیں۔ مجھے بہت برا لگا، ان کو بتا ہی نہیں سکی کہ میں آج کل چاہنے کے باوجود کچھ لکھ نہیں پاتی۔ دل نے کہا کہ ثبوت کے طور پر آپ کو اپنا فیس بک اکاؤنٹ ہی دکھا دوں۔

اب گھر آ کر سوچا ایسا کیا کیا جائے کہ اس دماغی سکوت کو توڑا جائے۔ اتفاقاً گھر کے باقی افراد گاؤں جا رہے تھے، گھر پر اکیلے رہنا تھا تو پورا ہفتہ میں نے خود کو اپنا بچہ بنا کر گود لے لیا۔ اور خود سے کہا یہ نہ سوچو کہ آپ نہیں لکھ پا رہیں، آپ مطالعہ نہیں کر پا رہیں، آپ کی استقامت آپ کے ہاتھ سے جا رہی ہے۔ میں نے ڈبل ماسٹر کے لیے جو داخلہ کرایا تھا وہ امتحان دینے بھی نہیں گئی کیونکہ میں نے اس سے کہا اس کا ذہنی سکون میرے لیے سب سے قیمتی ہے۔

میں نے اس کو اچھی کامیڈی فلمیں دیکھنے کو کہا اور وہ میوزک پلے کر کے دیا جو اس کو بہت پسند ہے۔ میں نے کہا چلو آپ ویسے رہو جیسے آپ رہنا چاہتے ہو۔ یوں وہ لکھاری بچی بیچارگی کے خول سے نکلنے لگی۔ تمام ذمہ داریوں کو ایک طرف رکھ کر زندگی کو خود میں اتار لیا۔

اور ہاں! آج پورے پندرہ دن بعد میری لکھاری حس نے مجھ سے سرگوشی میں کہا کہ وہ اب انتہائی نگہداشت کے وارڈ سے نکل کر کھلی ہوا میں سانس لے رہی ہے، چلو جی لکھنا شروع کر دو۔

آپ تمام لوگ بھی ہمیشہ جس بھی کام میں جتنے بھی ماہر کیوں نہ ہوں ایسا ہونا بہت عام سی بات ہے۔ اور پھر اس کیفیت سے نکل کر دوبارہ آپ اس سے بھی زیادہ مثبت توانائی خود میں محسوس کریں گے۔ تو خود کو جب بھی بیچارگی کے خول سے نکالیں گے تو آپ دیکھیں گے کہ ایک دنیا ہے جو انتظار کر رہی  ہے کہ اس کو آپ نے مسخر کرنا ہے۔

میرے اس بلاگ میں شاید آپ کو جنس یا معاشرے سے متعلق گلے شکوے یا غصہ نہ ملے لیکن ان سب کے لیے بھی پہلے اس سکوت کے حصار کو توڑنا لازمی ہوتا ہے۔

اور ایک اور اہم بات!

اگر آپ خود کوشش کر کے اس کیفیت سے نکلتے ہیں تو آپ ہر لمحے نئی زندگی  جی سکتے ہیں اور آپ کو پھر کوئی بھی نہیں ہرا سکتا کیوں کہ آپ خود اپنے سب سے اچھے دوست اور استاد بن چکے ہوتے ہیں۔

کیا آپ بھی کبھی ایسی کیفیت سے دوچار ہوئے ہیں؟ 

نوشین فاطمہ ایک سماجی کارکن اور بلاگر ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button