بلوچستان: پانی کا صدیوں پرانا نظام ‘کاریز’ کس طرح کام کرتا ہے؟
حضرت علی عطار
بلوچستان کے پشتون بیلٹ میں کاریزات کا نظام سماجی اور معاشی نظام میں ریڑھ کی ہڈی جیسے حثیت رکھتا ہے جبکہ ایک سروے کے مطابق بلوچستان میں ساڑھے 11 سو کے قریب کاریزات موجود ہیں تاہم بروقت منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ درجنوں کاریزات مکمل خشک ہوگئے ہیں۔
مقامی افراد کے مطابق کئی کاریزات میں پانی کی سطح کئی سو فٹ تک نیچھے چلی گئی ہے جس کے باعث صوبہ میں بیشتر اضلاع کے باسی نقل مکانی پر مجبور ہوگئے تھے تاہم پچھلی صوبائی حکومت کی کاوش سے ان کاریزات اور زیر زمین پانی کی سطح کو اوپر لانے کے لئے صوبے کے مختلف اضلاع میں ڈیمز بنائے گئے جس ان کاریزات کو محفوظ بنانے کی امید پیدا ہوئی ہے۔
ٹی این این کے نمائندہ نے اس سلسلے میں صوبے کے مشہور اور بڑے کاریزات میں شمار ہونے والے ‘مردہ’ کاریز کا دوہ کیا اور وہاں کے رہائشی حبیب اللہ اچکزئی سے مردہ کاریز کی تاریخ، کاریزات کے نظام، پانی کے تقسیم کے طریقہ کار جبکہ ڈیمز کی تعمیرات کے متعلق جاننے کی کوشش کی ہے۔
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے حبیب اللہ اچکزئی نے بتایا کہ مردہ کاریز 260 سالہ پرانا اور 30 ہزار نفوس پر مشتمل ایک بڑا کاریز ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہاں کے لوگوں کا ذریعہ معاش کاشت کاری سے منسلک ہے تاہم اس سے پہلے لوگوں نے مجبوری کے تحت کاریز کو چھوڑنا شروع کر دیا تھا جس کی وجہ مردہ کاریز میں ہر سال پانی کی کمی واقع ہونا تھا۔
حبیب نے بتایا کہ یہ غلط نہیں ہوگا کہ 35 فیصد آبادی نے مردہ کاریز سے شہری علاقوں کو نقل مکانی کی جس کی وجہ پانی کی کمی ہے اور لوگ یہاں پیسوں پر پانی خریدنے پر مجبور ہوگئے تھے تاہم اب ڈیمز تعمیر ہوئے اس کا ہمارے کاریز نظام پر بہتر اثر پڑے گا اور امکان ہے کہ لوگ یہاں دوبارہ کاشت کاری کرنے کے لئے آباد ہوجائے۔
کاریز کیا ہے اور یہ کس طرح کام کرتا ہے؟
حبیب اللہ اچکزئی کے مطابق کاریز پشتو زبان کا لفظ ہے جو زیر زمین پانی کو زمین کے ہموار سطح پر لانے کے نظام کو کہتے ہیں، اس نطام میں 20 سے 60 میٹر کے فصلے پر کنویں بنائے جاتے ہیں جن کو ایک سرنگ کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ منسلک کیا جاتا ہے جبکہ ان کنوؤں کی گہرائی ایک دوسرے سے مخلتف ہوتی ہے۔
ان کے بقول کاریز پانی کو پمپنگ کے بغیر آبپاشی اور دیگر مقاصد کے لئے اونچے مقام سے کئی کلو میٹر دور نیچھے مقام تک پہنچانے میں مدد دیتا ہے جبکہ اس نظام کی وجہ سے زیر زمین پانی ٹھنڈا رہتا ہے اور بخارات کی شکل میں نہیں اڑتا جس سے پانی کی سٹوریج میں کمی کا امکان کم ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس نظام کو مردہ کاریز کے علاقے میں بسنے والی عشیزئی قوم کے دو شاخوں نے آپس میں تقسیم کیا ہوا ہے جس کے تحت پہلے چھ روز جان نیکہ جبکہ دوسرے چھ روز بلال نیکہ استعمال کرتے ہیں اس کے بعد 13ویں روز یہ پانی جان نیکہ کا بڑا بیٹا فسلطب نیکہ کا ہوتا ہے جو کہ اس کاریز کی کھدائی کے دوران چل بسے تھے۔
واضح رہے اس نظام میں فسلطب نیکہ کے چل بسنے کے بعد اس کاریز کو مردہ کاریز کا نام دیا گیا تھا۔
ڈیم کی تعمیر سے مردہ کاریز کے پانی پر کیا اثر پڑا؟
حبیب اللہ کے بقول چھ سال پہلے اس کاریز میں پانی جمع ہونا بند ہوگیا تھا لیکن ڈیم بننے کے بعد ہمارے کاریز پر انتہائی مثبت اثر پڑا ہے جبکہ مون سون کی حالیہ بارشوں سے اس ڈیم میں کافی پانی جمع ہوا ہے جس سے اب 90 منٹ کے بجائے 30 منٹ میں تالاب بھر جاتا ہے۔
وہ کہتے ہیں ڈیم کی تعمیر سے ہمارے کاریز کا پانی 10 گنا بڑھ گیا ہے جبکہ اگر یہ منصوبہ 30، 35 سال پہلے بنایا ہوتا تو ممکن ہے کہ لوگ یہاں سے نقکل مکانی کرنے پر مجبور نہ ہوتے۔