دیر بالا: 14 لاکھ آبادی کے لئے ایک بھی گائناکالوجسٹ نہیں
ناصر زادہ
دیر بالا اتن درہ کے رہائشی غنی الرحمان صبح سات بجے سے اپنی چالیس سالہ حاملہ بیوی کے ہمراہ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال دیر کے لیبر روم میں بیٹھے گائنا کالوجسٹ کا انتظار کررہے تھے اور 12 بجے تک طویل انتظار کے بعد انہیں بتایا گیا کہ ہسپتال میں لیڈی ڈاکٹر کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے آپ تیمرگرہ ہسپتال چلے جائیں۔
دیر بالا ہسپتال میں موجود پریشان حال غنی الرحمان نے اپنی کہانی سناتے ہوئے ٹی این این کو بتایا کہ اگر ہمیں صبح یہ بتایا جاتا تو ہمیں یہاں انتظار کرنا نہیں پڑتا، یہ کہتے ہوئے وہ وہی سے اپنی بیمار بیوی کو ریسکیو 1122 کے ایمولینس میں بیٹھا کر 70 کلو میڑ کے فاصلے پر موجود تیمر گرہ ہسپتال روانہ ہوئے۔
یہ کہانی صرف غنی الرحمان کی نہیں ہے بلکہ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال دیر میں روازنہ کی بنیاد پر تقریبا سات آٹھ مریض اس صورتحال کا سامنا کرتے ہیں کیونکہ ہسپتال انتظامیہ کے مطابق ہسپتال میں گزشتہ سات سالوں سے گائنا کالوجسٹ کی پوسٹ خالی پڑی ہے۔ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کے ایم ایس صاحبزادہ امتیاز کے مطابق ہسپتال میں تین ڈبلیو ایم او یعنی فی میل ڈاکٹرز موجود ہیں جو لیبر روم میں نارمل ڈیلیوری کے کیسز کو ہینڈل کرسکتی ہیں تاہم جب مریض کی حالت نازک ہوتی ہے اس دوران ہم مجبورا انہیں تیمرگرہ ہسپتال ریفر کرتے ہیں۔
ان کے مطابق ہسپتال میں ہمارے پاس 18 سپیشلسٹ ڈاکٹرز کی آسامیاں ہیں جن میں صرف پانچ سپیشلسٹ ڈاکٹر موجود ہیں بافی 13 آسامیاں ابھی تک خالی پڑی ہیں۔ ڈاکٹر امتیاز نے بتایا کہ پورے ہسپتال میں ٹوٹل 112 ڈاکٹرز میں صرف 32 تعینات ہیں اور 80 آسامیاں خالی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہسپتال میں روزانہ کی بنیاد ایک ہزار سے زائد او پی ڈی ہوتی ہیں تاہم گائنا کالوجسٹ سمیت کارڈیالوجسٹ جیسے ڈاکٹروں کی کمی کی وجہ سے اکثر مریض علاج کی سہولیات سے محروم رہ جاتے ہیں۔
واضح رہے کہ دیر بالا کے 14 لاکھ سے زائد آبادی کا انحصار ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال پر ہے جبکہ اس کے علاوہ پانچ بڑے کیٹگری ڈی اور ار ایچ سیز ( بروال، واڑ اور پاتراک) ہیں تاہم ان سب میں گائنا کالوجسٹ نہ ہونے کی وجہ سے اکثر اوقات حاملہ خواتین کو زچگی کے دوران مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ڈسٹرکت ہیلتھ آفیسر دیر بالا ڈاکٹر خالد کے مطابق ہسپتالوں میں گائنا کالوجسٹ نہ ہونے کی وجہ سے زچگی کے دوران زچہ بچہ کی شرح اموات میں بھی اضافہ دیکھنے کو ملا ہے کیونکہ اگر پیدائش کے دوران ماں اور بچے کی صحت کا مناسب خیال نہیں رکھا جائے اور انہیں بروقت طبی سہولیات نہ دی جائے تو مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔
ان کے بقول دیر بالا میں کوالیفائیڈ ڈاکٹرز نہ آنے کی وجہ یہ ہے کہ ایک تو یہ علاقہ بارڈر کے قریب ہے جہاں شہری علاقوں جیسے سہولیات موجود نہیں دوسرا یہ کہ زیادہ تر ڈاکٹرز شہری علاقوں میں پرائیوٹ کلینکس چلاتے ہیں اس وجہ سے وہ دیر بالا میں ڈیوٹی کرنے کو ترجیح نہیں دیتے۔
انہوں نے حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ سال 2011 سے صوبے کے تمام میڈیکل کالج میں دیر بالا کے لیے دو فیمیل اور دو میل سٹوڈنٹس کا کوٹہ مقرر کیا گیا ہے جس میں اکثر طالبعملوں کو تعلق دیر بالا سے ہیں لیکن وہ بھی یہاں سروس نہیں دے رہے جس کی وجہ سے یہاں مریضوں کو مجبورا شہر کے ہسپتالوں میں علاج کے لئے جانا پڑتا ہے۔
ڈاکٹر خالد نے صوبائی حکومت اور محکمہ صحت کو مشورہ دیتے ہوئے بتایا کہ جب کوئی طالب علم کسی ضلع کے ڈومیسائل اور کوٹہ پر میڈیکل کالج میں داخلہ لیتا ہے تو ان پر لاگو کیا جائے کہ وہ فارغ ہونے کے بعد کم از کم پانچ سال اپنے ضلع میں سروس دینگے، اس کے ساتھ فیکس پے پر ڈاکٹرز کو بھرتی کیا جائے تاکہ عوام کے مشکلات کم ہوسکیں۔
دوسری جانب سال 2022 میں دیر بالا کے تمام ہسپتالوں سے مریضوں کو شہر کے بڑے ہسپتالوں میں منتقلی کی سروس ریسکیو 1122 کے حوالہ کیا گیا ہے۔
اس حوالے سے دیر بالا میں ریسکیو 1122 کے ایمرجنسی آفیسر شاہ ولی خان نے بتایا کہ پچھلے چھ ماہ کے دوران ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر سے 11 سو پندہ مریضوں کو صوبے کے مختلف ہسپتالوں کو منتقل کئے گئے ہیں جن میں تین سو سے زائد ڈیلیوری کے مریض شامل ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پہلے ہمارے پاس تین فی میل نرسز تھیں جو ڈیلیوری کیسز میں مریضہ کے ساتھ مخلتف ہسپتالوں تک جاتی تھی اور پچھلے ایک سال کے دوران ہمارے سفٹنگ سروس کے دوران تین ڈیلیوری کیسز حل ہوئے ہیں تاہم فی میل نرسز کے لئے بہتر رہائش نہ ہونے کی وجہ ہم نے ان کی سروس کو بند کر دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اب ہمارا طریقہ کار یہ ہے کہ اگر دوران سفر ڈیلیوری کی ایمرجنسی زیادہ ہوجائے تو ہم حاملہ خاتون کو دیر پشاور شاہراہ پر قریبی ہسپتال شفٹ کرتے ہیں۔