مریم آفریدی: قبائل کی پہلی ٹیکنیشن، مکینک خاتون
شمائلہ آفریدی
"سلائی چھوڑنے، دھاگہ ٹوٹنے، جمپ سٹیچنگ اور سوئی ٹوٹنے کے اسباب، مختلف مشینوں اور ان کے افعال اور استعمال کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ دوسرے الیکٹرک الات میں فنی خرابی کو ٹھیک کرنے کی مہارت سیکھ چکی ہوں۔” ٹی این این کے ساتھ یہ گفتگو سب ڈویژن حسن خیل سے تعلق رکھنے والی 40 سالہ مریم آفریدی کی ہے جو پورے علاقے کی خواتین کیلئے مثال بنی ہیں۔
مریم نے نہ تو تعلیم حاصل کی ہے نہ ہی کوئی ٹیکنیکل تربیت لی ہے بلکہ وہ اتنی بہادر اور ذہین ہیں کہ پہاڑی علاقے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا کر علاقے کی پہلی قبائلی ٹیکنیشن، مکینک خاتون کا اعزاز حاصل کر چکی ہیں۔
ٹی این این کو بتایا کہ وہ دس سالوں سے یہ کام کر رہی ہیں؛ ”پہلے دستکاری کرتی تھی، سلائی کرتی تھی، جب ٹیلر بنی تو میری سلائی کی مشین میں اکثر فنی خرابی آ جاتی تھی جسے دور مارکیٹ بجھوانا بہت مشکل ہوتا تھا، تو اک دن یہ ارادہ کیا کہ کیوں نہ میں خود ہی یہ کام سیکھ لوں، اور پھر ایک دن میری مشین خراب ہو گئی تو میں نے مکینک سے کہا کہ جب آپ اس کو ٹھیک کریں تو خراب آلات واپس بجھوا دیں، میں نے خراب آلات کو دیکھا، مشین کھولی اور نئی اور خراب مشین کا مشاہدہ کیا جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ مختلف افعال میں خرابی کیوں ہوتی ہے۔”
مریم نے بتایا کہ وہ نئی مشین کھول کر پرانی مشین میں سیٹنگ بار بار کرتی رہی، ”کئی دن کی اس جدوجہد میں دو مشینیں خراب کیں لیکن میں کسی حد تک مختلف افعال کو سیکھنے کی مہارت حاصل کر چکی تھی اور وقت کے ساتھ ساتھ پوری طرح سلائی مشین مکینک بن گئی، پھر اتنا تجربہ حاصل کیا کہ اب حسن خیل کی خواتین اپنی مشینیں اور الیکٹرک آلات ٹھیک کروانے آتی ہیں اور انہیں دور مارکیٹ نہیں جانا پڑتا۔”
مریم نے ٹی این این کو بتایا کہ سلائی مشین کے علاوہ وہ الیکٹرک آلات جیسے استری، لائٹس، بیٹریز، پلمبنگ، سولر میں فنی خرابی ٹھیک کرتی ہیں، خراب آلات میں بار بار سیٹینگ کر کے ہی یہ مہارت حاصل کی ہے۔
مریم کے مطابق قبائلی خواتین لامحدود صلاحیتوں کی حامل ہیں لیکن یہاں خواتین کو کسی قسم کی مہارت سیکھنے کے مواقع میسر نہیں ہیں، ”علاقے میں سکول نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کی جس کی وجہ سے جب کوئی ٹیکنیکل کام کرتی ہوں تو خراب آلات دکاندار کو دکھا کر نئے آلات خریدتی ہوں کیونکہ مجھے لکھنا پڑھنا نہیں آتا۔
مریم کو خود پر اتنا اعتماد ہے کہ وہ سمجھتی ہیں اگر انہوں نے میٹرک تک بھی تعلیم حاصل کی ہوتی تو آج وہ ایک انجینئر ہوتیں۔
مریم آفریدی اپنے گھر کا پورا خرچہ اٹھاتی ہیں، ان کے والدین اور علاقے کے لوگ ان پر فخر کرتے ہیں، وہ نہ صرف سلائی کرتی ہیں بلکہ لاک، کڑھائی دستکاری کے علاوہ بجلی کے آلات بھی بناتی ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ دوسری قبائلی خواتین کی طرح پہاڑوں سے لکڑیاں بھی لاتی ہیں، کھیتوں کا کام بھی کرتی ہیں اور مویشی بھی پالتی ہیں۔
مریم نے بتایا کہ کام سیکھنے کے دوران انہوں نے مشکلات کا بھی سامنا کیا کیونکہ آلات میں سیٹنگ کر کے بار بار تجربات کرنا آسان نہیں تھا، ”لیکن اس کے بغیر میں اپنے مقصد تک نہیں پہنچ سکتی تھی۔”
انہوں نے بتایا کہ وقت کے نئے تقاضوں کے ساتھ والدین کو سب سے پہلے اپنی بچیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا چاہیے، ان کو رسمی تعلیم کے ساتھ ساتھ ہنر سکھائیں اور جہاں تک ممکن ہو ان کا ساتھ دیں، تعمیری سوچ کے ساتھ ہر فرد عورتوں کی حوصلہ افزائی کرے اور ان کو عزت و مقام دے تو یہ سب ممکن ہے۔
مریم آفریدی کا یہ پیغام ہے کہ آج کے دور میں ہر لڑکی کو کسی نہ کسی ہنر میں ضرور مہارت حاصل کرنی چاہیے کیونکہ یہ اس کے اچھے مستقبل کی ضامن بن سکتی ہے۔
مریم آفریدی اس بات پر بھی یقین رکھتی ہیں کہ انسان ہر وہ کام کر سکتا ہے جس کا وہ سچے دل کے ساتھ ارادہ کرے، مسلسل جدوجہد اس کو اپنے مقصد میں کامیاب بنا سکتی ہے۔