لائف سٹائل

ویلنٹائن ڈے: عشق مجازی منانے کے لیے آخر یہ ایک ہی دن کیوں؟

ارم رحمٰن

لیجیے۔۔۔

آرہا ہے وہ دن جس کا ترجمہ۔۔۔ "کھل کر بےغیرتی کرنے کی اجازت کا دن” ہونا چاہیے۔ یعنی 14 فروری!

میں تاریخ کی طالبہ نہیں جو تاریخ سمجھاؤں، اور اس دن کی تفصیل میں جانے کی ضرورت تو بالکل بھی محسوس نہیں کرتی کیونکہ اس دن کو منانے کو عقل مانتی ہی نہیں اس لیے ہر ذی شعور ضرور میرا ہم خیال ہو گا، بس اتنا عرض ہے کہ اس بےہودہ، لغو اور فضول رسم کو اتنا زیادہ اہم بنا دیا گیا کہ فروری کا آغاز ہوتے ہی اس دن کی تیاریاں شروع، ہر شے لال لال نظر آتی ہے اور جو اصل سرخ چیز ہے وہ سفید محسوس ہونے لگتی ہے یعنی "خون!”

لال کپڑے، لال پان کے پتے کی شکل کے غبارے، جو عرف عام میں دل کی شکل کے کہلاتے ہیں کیونکہ اصل دل کی شکل تو کسی جنریٹر کے پائپ کی طرح ہوتی ہے جس کا کام محض سارے بدن میں خون کی سپلائی کرنا ہے، نجانے کس منچلے نے پان کے پتے کو دل کہا ہو گا یا اپنی آسانی کے لیے پان کی شکل بنا کر محبوبہ کو متاثر کیا ہو گا۔

اس طرح ایک اور مشہور کھلونا بھالو اس دن کی مناسبت سے اپنا دل سنبھالے کھڑا ہوتا ہے اور کثرت سے بہترین تحفے کے نام پر بکتا ہے۔ بھالو جیسا خونخوار درندہ جب دل لیے کھڑا ہو گا تو شاید یہ پیغام دینا مقصود ہو کہ محبت میں بھالو بھی بندر بن جاتا ہے اور محبوب کے اشاروں پر ناچنے لگتا ہے۔

ایک اور مضحکہ خیز بات کہ ٹی شرٹس اور لیڈیز جیولری بھی اس دن کے لیے ڈیزائن کی جاتی ہے اور بہترین بیکریز میں "خاص کیک”، کسی خاص کے نام کے ساتھ ❤️ لگا کر یا دل کی شکل والے کیکس عمومی طور پر مگر خصوصی آرڈرز پر بھی تیار کیے جاتے ہیں۔

اور لال گلاب کے پھولوں کی مت پوچھیے، اف! وہ تباہی مچتی ہے کہ گلستان کے گلستان اجڑ جاتے ہیں، وہ الگ بات ہے کہ بیچنے والوں کی چاندی ہو جاتی ہے۔ وہ معمولی کلی جس پہ عام دنوں میں کسی مالی کی نظر بھی نہ پڑے، وہ دو سو روپے تک پہنچ جاتی ہے یا اس سے بھی زیادہ یا یوں کہہ لیجیے کہ عام پہنچ سے دور ہو جاتی ہے، اس دن تو مرنے والے کی قبر پر بھی گلاب کے پھول ڈالنا دشوار ہو جاتا ہے، اللہ کرے اس دن کوئی نہ مرے!

غرض اس دن کو منانے سے بہت سے لوگوں کا کاروبار چمک اٹھتا ہے یعنی ایک فضول رواج سے پیسہ کمانے کا اچھا رواج، باقی قومی غیرت اور حمیت جائے بھاڑ میں!

14 فروری کو سارے زمانے میں اور خاص طور پر وطن عزیز میں ایک ایسا ماحول بن جاتا ہے جیسے اس دن کو منانا ثواب دارین حاصل کرنے کے مترادف ہے، اور اہم قومی فریضہ سر انجام دینے کا باعث، عیدین کی نماز میں اتنے مسلمان نہیں ہوتے جتنا نام نہاد نکمے ویلے عاشق نماز عشق ادا کرنے کے چکر میں جوق در جوق، دھڑا دھڑ ہر کونے کھدرے سے نکل کر محبوب کے سامنے پیش ہونے کے لیے پیش پیش ہوتے ہیں۔ ان کے لیے برساتی مینڈک کی مثال بھی جچتی ہے۔

معصوم بچے بچیاں وقت سے پہلے ان خرافات سے واقف ہو جاتے ہیں جنھیں جاننے کی چنداں ضرورت نہیں ہوتی، شریف نیک لوگ، سادہ لوح عوام غریب لڑکے لڑکیاں ایک نامعلوم اور غیرمحسوس طریقے سے عجیب سے احساس کمتری اور محرومی کا شکار ہو جاتے ہیں جیسے انھیں لال گلاب دینے والا کوئی مائی کا لال یا کسی باپ کی لالی، لاڈلی یا پری اب تک کرہ عرض پہ نمودار نہیں ہو سکی، ہائے افسوس صد افسوس کے مصداق منہ لٹکائے پھرتے ہیں۔

لڑکے لڑکیاں، کسی کے بھائی بیٹے اور بہن بیٹیاں ان سب کو کھلی اجازت مل جاتی ہے کہ کسی دوسرے کی بہن بیٹی سے یا بھائی بیٹے سے کھل کر اقرار محبت کیا جائے اور وہ سب راستے اختیار کیے جائیں جو غیراخلاقی اور غیرمناسب ہیں۔

کچھ لوگ جو ہر جگہ مثبت پہلو ڈھونڈنے کی کوشش میں یا اپنا کھسیانہ پن چھپانے یا خود ساختہ خفت مٹانے کے لیے اپنے والدین بہن بھائی، اور اپنے ہم جنس دوستوں کو اس دن کی مبارکباد دیتے ہیں جس کی کوئی تک ہی نہیں بنتی، مبادا اس کے اس دن کی مخالفت کرنے کے وہ اسے سب سے محبت کرنے کا سبب سمجھنے لگتے ہیں اور بنا سوچے سمجھے فخر سے کہتے ہیں کہ محبت تو والدین بہن بھائی سب سے ہوتی ہے لہذا "ویلیںٹائن ڈے” سب کے لیے سب اپنوں سے محبت کے اظہار کا دن ہے۔

میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ اس دن کی مبارکباد دینے سے پاکستانی قوم کو کتنے نفلوں کا ثواب ہو گا؟ چلو کچھ میاں بیوی، اپنی مرضی سے عاشق اور معشوق کی فہرست میں خود کو ڈال کر یہ دن منائیں تو کچھ رعایت نکل سکتی ہے کیونکہ عشق مجازی منانے کا دن ہے اور بالفرض اگر نکاح کے بعد بھی عشق قائم ہے تو سونے پہ سہاگے کا کام ہے ورنہ جلتی پہ تیل چھڑکنے کا، اور یاد رکھیے کہ یہ دن والدین یا کسی بھی سگے خونی رشتوں سے محبت کا قطعی مظہر نہیں۔

لیکن عشق مجازی منانے کے لیے آخر یہ ایک ہی دن کیوں؟ باقی 364 دن میں اظہار محبت کرنا کیونکر ممکن نہیں، خدارا! سوچیے کہ اس دن کے حوالے سے کچھ بھی سوچنا اور کچھ بھی کرنا کیا وقت، اخلاقی اقدار، قومی عفت و افتخار اور سرمایہ کثیر کا زیاں نہیں!

اس دن اپنے بچے بچیوں پہ خاص طور پر نظر رکھیں انھیں سمجھائیے کہ یہ مکروہ اور حرام کام کا دن ہے۔ بعض لوگ ایسی باتوں کو کٹر مسلمان ہونے یا مذہبی انتہاپسندی کا نام دیتے ہیں اور ایسے دن منانے کو سوشل ہونے، مل بیٹھ کر خوش گپیاں لگانے کی ترغیب دینا سمجھتے ہیں لیکن عرض یہ کرنا ہے کہ مذہب جتنے بھی آئے ان کا مقصد تو بنی نوع انسان کو گمراہی اور لغویات سے روکنا ہی مقصود تھا۔

اگر آپ میں سے کسی کو محسوس ہوتا ہے کہ ویلینٹائن ڈے منانا کسی بھی مذہب، مسلک یا فرقے کے علاوہ انسانیت اور اخلاقی اقدار کی ترقی و ترویج کے لیے ٹھوس عملی قدم اور ملت و عوام کے لیے گراں قدر خدمت سرانجام دینا ہے، تو یہ دن ضرور منائیے!

Erum
ارم رحمٰن بنیادی طور پر ایک شاعرہ اور کہانی نویس ہیں، مزاح بھی لکھتی ہیں۔ سیاست سے زیادہ دلچسپی نہیں تاہم سماجی مسائل سے متعلق ان کے مضامین نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ پڑوسی ملک سمیت عالمی سطح کے رسائل و جرائد میں بھی شائع ہوتے رہتے ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button